بلوچستان ’لاپتہ‘ طلبہ کیس: مذاکرات کے بعد بائیکاٹ کی کال واپس

بلوچستان یونیورسٹی سے مبینہ طور پر لاپتہ دو طالب علموں کے ساتھیوں نے صوبائی حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کو چار دن کا وقت دیتے ہوئے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کی بندش اور تعلیمی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کی کال واپس لے لی۔

کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی سے مبینہ طور پر لاپتہ دو طالب علموں کے ساتھیوں نے جمعے کو صوبائی حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کو چار دن کا وقت دیتے ہوئے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کی بندش اور تعلیمی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کی کال واپس لے لی۔

دونوں طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح اللہ یکم نومبر کو بلوچستان یونیورسٹی سے مبینہ طور پر لاپتہ ہو گئے تھے، جس کے بعد ان کے ساتھی طلبہ نے احتجاج شروع کر دیا۔

واقعے کےخلاف کوئٹہ کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔

یونیورسٹی کے احاطے میں چار دن سے دھرنا دینے والے طلبہ سے آج حکومتی پارلیمانی کمیٹی کے وفد میں شامل تین ارکان سردار عبدالرحمٰن کھیتران، ملک نصیر شہوانی اور احمد نواز نے ملاقات کی۔

حکومتی وفد نے طلبہ سے کہا ہے کہ انہیں مسئلے کے حل کے لیے کچھ دن دیے جائیں، جس پر طلبہ نے مشاورت کے بعد چار دن کا وقت دینے کا فیصلہ کیا۔

طلبہ کی مذاکراتی کمیٹی میں شامل بالاچ قادر نے بتایا کہ حکومتی کمیٹی نے ان سے کہا کہ چونکہ وزیراعلیٰ صوبے میں نہیں اور اگلے دو دن ہفتہ وار چھٹی ہے لہٰذا انہیں پانچ دن کا وقت دیں تاکہ وہ طلبہ کی بازیابی  یقینی بنا سکیں۔

بالاچ نے بتایا کہ انہوں نے حکومتی کمیٹی کو وقت دیتے ہوئے فی الحال تعلیمی سرگرمیوں کے بائیکاٹ کی کال واپس لے لی۔

’تاہم اس دوران یونیورسٹی کےایڈمن بلاک کے سامنے ٹوکن دھرنا جاری رہے گا۔ اگر اس کے بعد بھی ہمارے ساتھی بازیاب نہیں ہوئے تو پھر آئندہ کا لائحہ طے کریں گے۔‘

انہوں نے حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ ’انہوں نے ہمیں کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا کہ وہ کیا کرسکتے ہیں۔

’تاہم انہوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ آپ ہمیں جتنے دن دے رہے ہیں اس کے بعد ہم آپ لوگوں کو خوش خبری سنائیں گے۔‘

دونوں مبینہ طور پر لاپتہ طالب علموں کے بھائیوں کی مدعیت میں اغوا کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بالاچ قادرنے بتایا کہ اس واقعے کے بعد پروفیسرز،  لیکچرارز اور یونیورسٹی کے عملے نے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

’ایک طرف طلبہ میں پریشانی ہے تو دوسری جانب  اساتذہ اور دیگر یونیورسٹی عملے میں خوف پھیل چکا ہے، جنہیں خدشہ ہےکہ کل ایسا کوئی واقعہ ان کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ لمحہ فکریہ ہے کہ یونیورسٹی میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے باوجود یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ طلبہ کو کیسے اٹھایا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ اس واقعے سے تعلیمی ادارے کی بھی بدنامی ہوئی۔ ’ایسے میں ادارے کے سربراہان کو ہمارا ساتھ دینا چاہیے تھا لیکن وہ ہمارے ساتھ نہیں۔’

انڈپینڈنٹ اردو نے حکومتی کمیٹی کا موقف جاننے کے لیے کمیٹی کے رکن احمد نواز سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہ ہو سکی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان