شاہین الیون کو خراج تحسین

بظاہر قومی ٹیم کا مسئلہ پریشر ہینڈلنگ کا رہا۔ کھلاڑی دباؤ میں آگئے اور بوکھلا گئے گھبرا گئے حالانکہ کپتان نے سمجھا کر بھیجا تھا کہ گھبرانا نہیں ہے۔

شاداب خان پاکستان میں سیمی فائنل میں ہار کے بعد رنجیدہ ہوگئے (اے ایف پی)

بھلے ہی شاہین کینگروز کو اس بار بھی جھپٹ نہ سکے۔ لیکن یقین مانیں اعظم الیون آزمائش پر پورا اتری ہے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے تمام ایونٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم ہر مخالف کے اعصاب پر چھائی رہی۔ پاکستان کا بڑے ایونٹ کا آغاز ہی فاتحانہ تھا اور پہلا نشانہ ہی کرکٹ کی دنیا کا ازلی حریف بھارت تھا ۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ پھر افغانستان ۔ ہر میچ مختلف زاویوں سے منفرد رہا۔

پاکستانی ٹیم ہر آنے والے میچ میں پرانے ریکارڈ توڑتی اور نئے بناتے گئی۔ ہر میچ کا مردِ میدان بھی مختلف رہا یعنی تمام کھلاڑیوں نے جی جان سے پرفارم کیا اور پاکستان دنیائے کرکٹ کے اس بڑے ایونٹ میں پول میچز میں ناقابل شکست رہتے ہوئے سیمی فائنل کی دوڑ میں جا پہنچا۔

خراجِ تحسین ہے قومی کرکٹ ٹیم کے ہر اس شاہین کو جو ہر میچ میں جھپٹ کے پلٹا اور پلٹ کے جھپٹا۔ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے۔ کون سا کھلاڑی ایسا ہوگا جسے جیت کا سہرا باندھنے کی خواہش نہ تھی؟ اور یہی خواہش لیے پاکستان کی شاہین الیون آسٹریلیا کے خلاف میدان میں اتری تھی۔

آغاز اچھا رہا اور اوپنر بلے بازوں نے شروعات اچھا کر دی۔ ون ڈاؤن سے لے کر مڈل آرڈر تک نے اچھا پرفارم کیا اور ایک مناسب ہدف حریف آسٹریلیا کو دیا گیا۔ آسٹریلوی بلے باز ہدف کے تعاقب میں میدان میں اترتے ہی لڑکھڑا گئے۔ پہلی وکٹ جلدی گَنوا دی اور فوراً پریشر میں آگئے۔

اب اصل چیلنج تھا اس دباؤ کو ہینڈل کرنے کا ۔ پریشر لیتے ہی مطلوبہ رَن ریٹ ڈاٹ بالز زیادہ تعداد میں ہونے کی وجہ سے بڑھتا گیا لیکن کینگروز کی منصوبہ بندی یہی تھی کہ بھلے سکور دھیرے دھیرے چلتا رہے، بس وکٹ نہ گرے۔ یہ سٹریٹیجی آسٹریلوی بلے بازوں کی کافی حد تک کامیاب رہی۔ جس کے دوران پریشر لیا بھی اور اسے آہستے آہستے کم بھی کیا۔

طویل پارٹنرشپ کا آسٹریلوی بلے بازوں کا خواب شاداب نے آتے ہی توڑ ڈالا۔ یکے بعد دیگرے چار وکٹ شاداب نے اڑا دیے۔ کیا ہی کمال کی گیند بازی تھی۔ آسٹریلوی ٹیم ایک بار پھر پریشر میں آ گئی لیکن میچ اختتام کے قریب تھا۔ بڑا ہی سنسنی خیز مرحلہ۔

چند گیندوں پر رنز کا ڈھیر باقی تھا۔ آخری 30 گیندوں پر 60 کے لگ بھگ سکور درکار تھا۔ ایسے میں آسٹریلوی بلے بازوں پر مزید دباؤ بڑھنا چاہیے تھا لیکن معاملہ الٹ ہوگیا اور اس بار ہمارے گیند باز لڑکھڑا گئے۔ اوور پِچ، شارٹ پِچ گیند بازی کا مظاہرہ شروع ہوگیا۔ اور ایسے میں پھر ہر گیند باونڈری سے باہر۔

میچ کے آخری مراحل میں قومی ٹیم کے سٹار باولر حسن علی نے ایک کیچ یعنی میچ ہی ڈراپ کر دیا۔ جس بلے باز کا کیچ حسن علی کے ہاتھوں چھوٹا اسی بلے باز نے قومی ٹیم کے شاہین، شاہین آفریدی کے چھکے چھڑا دیے۔ اور بجائے کہ میچ آخری اوور میں جاتا اس سے پہلے ہی اختتام کو جا پہنچا۔

یہ ابھی میچ کا اختتام تھا۔ ابھی اس ہار پہ تکرار شروع ہونا تھی جو کہ میچ کے ختم ہونے سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی اور ذمہ داروں کا تعین شروع ہوگیا کہ ہار کے ذمہ دار حسن علی ہیں جنہوں نے اہم کیچ چھوڑ کر میچ ہاتھ سے گنوا دیا تو دوسری طرف شاہین آفریدی، حارث رؤف بھی تنقید کی زَد میں ہیں۔ بابر اعظم کی کپتانی پر باہر حال ملاجلا ردعمل ہے۔

ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے لیکن غلطیوں ذمہ داروں کا تعین بھی ’کھیل کی حد تک‘ ضروری ہے۔ ہاں! غلطیوں اور ذمہ داران کا تعین کر کے ہم اس نقصان کا ازالہ تو نہیں کر سکتے لیکن آئندہ کے لیے سبق حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔

بظاہر قومی ٹیم کا مسئلہ پریشر ہینڈلنگ کا رہا۔ کھلاڑی دباؤ میں آگئے اور بوکھلا گئے گھبرا گئے حالانکہ کپتان نے سمجھا کر بھیجا تھا کہ گھبرانا نہیں ہے۔ یہاں پر ایک کریڈٹ قومی کرکٹ ٹیم کو ضرور جاتا ہے کہ اس بار ٹیم میں سیاست نہیں تھی۔ کسی نے دوسرے کی ٹانگ نہیں کھینچی۔ کسی کھلاڑی نے برے کھیل کا ملبہ دوسرے پلیئر پر نہیں ڈالا۔ ہاں! سب نے اپنی اپنی ذمہ داری بطور ٹیم ضرور قبول کی ہے اور ہمیں یہ معذرت اس وعدے کے ساتھ قبول کرنا ہوگی کہ آئندہ نہ گھبرائیں گے نہ یہ غلطیاں دوبارہ دوہرائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاست کے کپتان کے کرکٹ کے کپتان کو ’گھبرانا نہیں‘ کے پیغام کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو پھر تھوڑا کرکٹ کے ساتھ سیاست کے کھیل کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ جس طرح سیمی فائنل میں قومی کرکٹ ٹیم پریشر میں آ کر غلطیاں کرنے لگی ٹھیک ویسے ہی سیاست کے کپتان کو بھی خدشہ ہے کہ ان کی ٹیم بھی پریشر میں آ کر غلطیاں نہ کر بیٹھے۔

بظاہر پی ٹی آئی الیون بھی آج کل پریشر میں ہے جس کے سبب اس سے غلطیاں بھی سرزَد ہو رہی ہیں۔ کیونکہ انہی غلطیوں کی بدولت آج سیاست کے کھیل میں حکومت کے اتحادی بھی ناراض ہیں، جس کی واضح مثال حکومتی اتحاد کے عدم اعتماد کے باعث پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا ملتوی ہونا ہے۔

دوسری طرف ق لیگ نے بھی حکومت کا قافیہ تنگ کر رکھا ہے۔ پنجاب بھی اسی سیاست کے زیر عتاب ہے۔ یہ تو ہے حکومت کے اندر سے دباؤ کی کیفیت۔ دوسرا پریشر کپتان الیون پر پی ڈی ایم اور اپوزیشن الیون کا ہے جس کی طرف سے تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت مخالف نئے جلسے جلوس کا موسم شروع چاہتا ہے۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی تحریک عدم اعتماد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ بظاہر لگ ایسے ہی رہا ہے کہ کپتان کی ٹیم بھی پریشر میں آ گئی ہے۔ اس سیاست کے ٹی ٹوئنٹی میچز کے بارے میں آئندہ کالم میں تحریر کروں گی۔ انشااللہ

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ