ٹی 20 ورلڈ کپ: ’افغانستان ہمارا خون ہے تو پاکستان ہماری محبت‘

آئی سی سی ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ میں جمعے کو پاکستان اور افغانستان کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔ پاکستان اب تک اپنے ابتدائی دونوں میچ جبکہ افغانستان بھی اپنا پہلا میچ جیت چکا ہے۔

افغان طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے جہاں بہت سے چیزیں پہلی مرتبہ ہوئیں وہیں جمعے کو پاکستان اور افغانستان کی کرکٹ ٹیمیں پہلی مرتبہ آسی سی ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہونے جا رہی ہیں اور مبصرین کے خیال میں بھارت کے بعد پاکستانی شائقین کے لیے افغانستان اب ایک نئے روایتی حریف کے طور پر ابھرا ہے۔

کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے کیونکہ ماضی میں کرکٹ کا کھیل ہی واحد ایسا کھیل سمجھا جاتا تھا جس پر مخالف ٹیموں کے ممالک کی سیاست بھی اثر انداز ہوتی تھی۔

بھارت کی مثال ہی لیجیے۔ جب بھی پاکستان اور بھارت کے مابین میچ ہوتا ہے تو کھیل کا میدان کم اور جنگ کا میدان زیادہ لگتا ہے۔

شائقین کرکٹ بھی یہی مانتے ہیں کہ بے شک پوری سیریز ہار جائیں بس بھارت سے شکست نہیں ہونی چاہیے۔

پشاور کے سہیل احمد کا کہنا ہے کہ ’ٹی 20 ورلڈ کپ بے شک ہم ہار جائیں لیکن ہمارے لیے بھارت سے جیتنا ورلڈ کپ جیتنے کے برابر ہے۔‘

پاکستان اور بھارت کرکٹ کے میدان کے علاوہ کئی بار میدان جنگ میں بھی آمنے سامنے آ چکے ہیں اور ابتدا ہی سے پاکستان اور بھارت کے مابین سفارتی تعلقات زیادہ تر خراب ہی رہے ہیں۔

انہی سفارتی تعلقات کے خراب ہونے کی وجہ سے بھارت کو ایک سخت روایتی حریف سمجھا جاتا ہے۔

بھارت کے علاوہ رواں ٹی 20 ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کو بھی ایک ’حریف‘ کی طرح دیکھا جا رہا تھا جس کی وجہ نیوزی لینڈ کی جانب سے حالیہ دنوں دورہ پاکستان سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اچانک منسوخ کرنا تھی۔

اب افغانستان اور پاکستان کے درمیان جمعے کو کھیلے جانے والے میچ کو بھی کچھ لوگ اسی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے سفارتی تعلقات میں پیچ و خم دیکھنے کو آئے تھے اور یہ زیادہ تر حکومتی سطح پر ہوتا تھا۔

ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ افغان حکومت میں شامل عہدیداران پاکستان پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے رہے اور افغانستان میں خراب حالات کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔

شائقین ان خراب سفارتی تعلقات کے اثرات کی جھلک آئی سی سی ورلڈ کپ کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھیلے گئے میچ میں دیکھ چکے ہیں جہاں نہ صرف کھلاڑیوں کے درمیان میدان میں گرما گرمی دیکھی بلکہ دونوں ٹیموں کے مداحوں کے درمیان بھی کافی تناؤ دیکھا گیا تھا۔

طالبان حکومت کے بعد کچھ بدلے گا؟

پاکستان میں ’افغان جہاد‘ کے بعد لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان آئے اور  یو این ایچ سی آر کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 30 لاکھ سے زائد افغاں پناہ گزین آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر پشاور اور بلوچستان میں ہیں۔

گذشتہ سال بھی پاکستان اور افغانستان کی ٹیموں کے درمیان میچ کے موقع پر میں نے پشاور کے بورڈ بازار جس کو منی کابل بھی کہا جاتا ہے کا دورہ کیا تھا۔

وہاں پر افغان پناہ گزینوں کی جانب سے میچ دیکھنے کے لیے ٹی وی کا انتظام کیا گیا تھا لیکن جب میں وہاں پہنچا تو کوئی بھی افغان پناہ گزین مجھ سے بات کرنے کو تیار نہ ہوا تھا جس کی وجہ بہت دلچسپ تھی۔

ان میں سے ایک نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ’افغانستان کی ٹیم کو دل سے سپورٹ کرتے ہیں تاہم کیمرے پر نہیں بول سکتے کیونکہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں اور اگر ہم نے پاکستان ٹیم کے خلاف کچھ کہا تو شاید ہمیں گرفتار کر لیا جائے۔‘

ایک دوسرے شخص نے مجھے بتایا تھا کہ ’ظاہر سی بات ہے کہ افغانستان ہمارا ملک ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے لیکن ہم افغانستان کی ٹیم کو ہی سپورٹ کریں گے لیکن کیمرے پر آکر میں کھلے عام یہ نہیں کہہ سکتا۔‘

اب جمعے کو ہونے والے میچ کے حوالے سے بھی ہم نے پشارو میں مقیم کچھ افغان پناہ گزینوں سے بات کی ہے۔

مطیع اللہ کا تعلق افغانستان کے ننگرہار صوبے سے ہے اور وہ پشاور میں گذشتہ کئی برسوں سے آباد ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے میچ دیکھنے کے لیے تیاری مکمل کر لی ہے۔ ہمیں دنوں ہی ٹیمیں پسند ہیں لیکن جب پاکستان کا بھارت سے میچ ہوتا ہے تو ہم پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں۔‘

’ہم دونوں پر خوش ہوتے ہیں لیکن میں افغانستان کی ٹیم کو سپورٹ کروں گا۔ افغانستان کی ٹیم میں راشد اور پاکستان کی ٹیم میں بابر اعظم میرے فیورٹ کھلاڑی ہیں۔‘

پشاور کے علاقے گلبرگ میں تندور کا کام کرنے والے افغان پناہ گزین نے بتایا کہ ’میری فیورٹ ٹیم افغانستان ہے، امید ہے کل کے میچ میں کامیابی افغانستان کو ملے گی کیونکہ افغانستان کے کھلاڑی اچھے ہیں جن میں ایک حضرت اللہ زازئی بھی ہیں۔‘

جہانزیب کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی بولنگ اچھی ہے۔ ان کے پاس شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف جیسے بولر موجود ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان جیت جائے۔‘

’دونوں مسلمان ٹیمیں ہیں جو بھی جیتے اچھا ہے لیکن چونکہ ہم افغانستان کے ہیں تو چاہتے ہیں کہ افغانستان جیت جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میچ تندور کی دکان میں ہی دیکھیں گے کیونکہ یہاں پر ہم نے ٹی وی کا انتظام کیا ہے اور مارکیٹ کے باقی لوگ بھی یہاں آکر اکٹھے میچ دیکھتے ہیں۔‘

اسی تندور پر کام کرنے والے افغانستان سے تعلق رکھنے والے شیر آغا نے بتایا کہ ’ہم دونوں ٹیموں پر خوش ہوتے ہیں اور جو بھی جیتتا ہے تو یہ ہماری جیت ہوگی۔‘

’افغانستان ہمارا خون ہے اور پاکستان ہماری محبت ہے تو جو بھی جیتے ہم خوش ہوں گے۔‘

آغا سے جب پوچھا گیا کہ کیا طالبان کے آنے کے بعد کرکٹ شائقین کے جذبے میں کوئی تبدیلی آئی ہے، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے تو کوئی تبدیلی نوٹ نہیں کی اور ٹیم پہلے بھی یہی تھی، اب بھی وہی ہے۔‘

پشاور کے تاریخی اسلامیہ کالج کے ڈائریکٹر سپورٹس علی ہوتی جو افغانستان کرکٹ ٹیم کے سٹار بولر راشد خان اور محمد نبی کو بھی سکھا چکے ہیں، نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ ’بھارت پاکستان کا روایتی حریف تو مختلف وجوہات کی بنا  پر ہے جس میں ایک بنیادی وجہ مذہب ہے تاہم افغانستان کے خلاف میچ میرے خیال میں اس طرح نہیں لیا جاتا جس طرح بھارت کے ساتھ ہوتا ہے۔‘

علی ہوتی کہتے ہیں کہ ’افغان عوام میں سے کم ہی ایسے لوگ ہوں گے جو پاکستان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجموعی طور پر پاکستان اور افغانستان کے لوگ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’افغانستان کے کھلاڑیوں میں بھی ایسی کسی نفرت کا عنصر موجود نہیں کیونکہ افغانستان کی ٹیم کے بننے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔‘

’طالبان کے سابق دور حکومت میں افغانستان کی ٹیم گریڈ ٹو کے میچز پشاور کے ارباب نیاز سٹیڈیم میں کھیلتی تھی اور اب بھی افغان ٹیم میں شامل بہت سے کھلاڑی پاکستان ہی میں ٹریننگ کر چکے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’راشد خان، محمد نبی، شہزاد سمیت بہت سے افغان ٹیم کے کھلاڑی پشاور میں ہی ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں۔ نبی تو پاکستان کسٹم کی ٹیم کے کھلاڑی بھی رہ چکے ہیں اور یہاں سے انہوں نے کرکٹ کا آغاز کیا تھا۔‘

افغانستان کی کرکٹ ٹیم 90 کی دہائی میں بنی اور اس کی بنیاد بھی پشاور میں رکھی گئی تھی۔

بین الاقوامی میگزین ہمالیہ کے مطابق پشاور کے افغان پناہ گزین کیمپ کچہ گڑھی میں تین چار نوجوانوں نے تاج ملک کی سربراہی میں مقامی سطح پر ایک لیگ کی بنیاد رکھی تھی اور یہی لیگ بعد میں افغانستان میں کرکٹ ٹیم بننے کی وجہ بنی۔

میگزین کے مطابق اسی لیگ نے طالبان کے اس دور میں کوشش بھی کی تھی کہ طالبان کی جانب سے اس لیگ کو ایک سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے لیکن وہ اس وقت ممکن نہ ہو سکا تھا لیکن 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان ٹیم سرکاری طور پر ابھری اور اسی سال وہ آئی سی سی کی رکن بھی بن گئی تھی۔

افغانستان نے پہلا ایک روزہ میچ سکاٹ لینڈ کے خلاف 2009 میں کھیلا تھا جبکہ 2015 میں پہلی مرتبہ آئی سی سی ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ