ہمارے ارد گرد موجود عید کہانیاں

یہ کچھ کہانیاں ہیں جو ہمارے ارگرد نئے نئے ناموں کے ساتھ موجود ہیں، کہیں پر کردار تبدیل ہیں تو کہیں کہانی کی نوعیت تبدیل ہو گی۔

(اے ایف پی)

پہلا گھر زمیندار ریاض کا ہے جس کے بچے چاند دیکھ کر خوش ہیں کہ صبح وہ لوگ ابو کے ساتھ کراچی گھومنے جائیں گے اور ریاض صاحب سوچ رہے ہیں کہ جانا تو لازمی ہے اور اس کے لیے مجھے بچوں کے لیے فلاں فلاں چیز بھی لانی ہیں، اگر مارکیٹ کھلی ہوئی تو بہت کچھ خرید لوں گا۔

دوسرا گھر مستری محمود کا ہے جس کے بچے چاند دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہیں کہ اِس بار پچھلے سال کے برعکس اُس نے سب بچوں کے لیے نئے جوڑے خریدے ہیں اور اب محمود صاحب سوچ رہے ہیں کہ اس دفعہ اگر بینک سے نوٹ بھی نئے ملیں تو بچوں کی خوشی میں مزید اضافہ ہو جائے گا کیونکہ پچھلی عید پر بچے خوش تھے مگر وہ نئے نوٹ مانگ رہے تھے۔

تیسرا گھر ریٹائر کرنل امجد کا ہے۔ بیٹا عثمان عید کا چاند دیکھ کر خوش ہے کہ ابو کے وعدے کے مطابق صبح وہ آئی پیڈ وصول کرے گا اور دل میں سوچ رہا ہے کہ میں صبح ابو کو بڑے فخر سے سلیوٹ کروں گا اور خوشی کا اظہار کروں گا، لیکن امجد صاحب سوچ رہے ہیں کہ بیٹے کو موبائل دینے کے ساتھ وقت نکال کر موبائل چلانا بھی سیکھنا چاہیے۔

چوتھا گھر ہاری اعجاز کا ہے جس کے بچے یہ حساب لگانے میں مصروف عمل ہیں کہ پچھلی عید کو چھوٹے اور منجھلے کو عید کے کپڑے ملے تھے اس عید پر فلاں فلاں کوعید کے کپڑے ملیں گے جبکہ اعجاز صاحب یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر سیٹھ سے اس دفعہ ادھار مل گیا تو عید کے بعد کے مہینے کا بھی کام چل جائےگا تو بہت اچھا ہو گا۔

اسی طرح پانچواں گھر مزدور رب نواز کا ہے جس کے بچے چاند دیکھ کر خوش ہیں کہ صبح ہمسایوں کے گھر سے کچھ لذیذ کھانے کو آئے گا جبکہ رب نواز یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر آج عید کے دن بھی صبح صبح کہیں دیہاڑی لگ جائے تو ہمیں کل شام کسی کے سامنے ہاتھ ڈالنے یا بھوکے رہنے کی نوبت نہیں آئے گی۔

یہ کچھ کہانیاں ہیں جو ہمارے ارگرد نئے نئے ناموں کے ساتھ موجود ہیں، کہیں پر کردار تبدیل ہیں تو کہیں کہانی کی نوعیت تبدیل ہو گی۔ کہنے اور لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں خدا کی قدرت سے شام کو دسترخوان وسیع ہو جاتے ہیں اور کوئی بھی گھر ایسا نہیں ہو گا جہاں اچھے کھانے نہ بنے ہوں۔

غریبوں کے لیے بھی جگہ جگہ رمضان دستر خوان لگے ہوتے ہیں اور صاحب استطاعت لوگوں کے جیب بھی نہ چاہتے ہوئے کھل جاتے ہیں، جس سے ناداروں اور مسکینوں کا بھلا ہو جاتا ہے۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اس سے پہلے کہ شعبان کا چاند نکل آئے، ارگرد نظر دوڑا کر کہانی کے کرداروں پر نظر ڈالیں اور جتنی حیثیت ہو اُس کے مطابق لوگوں کی مدد کریں۔

اگر کوئی غریب بھوکا سوتا ہے تو حکمران کے ساتھ ساتھ اُس کے بھوکا سونے میں میرا اور آپ کا بھی کردار ہے۔ اس کی غربت کی وجہ ہم ہیں جو اُس کی نسل در نسل کو غریب رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے اور قیامت کیا ہوتی ہے جب کوئی سفید داڑھی والا ضعیف آپ کے سامنے ہاتھ پھیلائے، آپ کے سامنے کوئی بھوک سے مر رہا ہو اور آپ اُس کا تماشا دیکھ رہے ہوں۔

ان کہانیوں کو پڑھنے کی حد تک نہیں بلکہ عمل کی حد تک سوچیے، یقین مانیں آپ لوگوں کی یہ عید بہترین ہو گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ