150 ممالک کے نایاب سکوں، نوٹوں اور ٹکٹوں کے مالک

ایبٹ آباد کے اعجاز احمد کہتے ہیں کہ ان کے پاس سینکڑوں نایاب اور قدیم سکے، ڈاک ٹکٹ اور کرنسی نوٹ موجود ہیں جنہیں انہوں نے ملک کے کونے کونے میں جا کر حاصل کیا ہے۔

اعجاز احمد نوادر و قدیم اشیا جمع کرنے کے شوقین ہیں۔ چھوٹے سے مکان میں ان کے کمرے میں داخل ہوں تو کتابوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے جبکہ ان کے پاس بہت سارے پرانے نایاب اور بیش قیمت سکوں، کرنسی نوٹوں اور ڈاک ٹکٹوں کا ذخیرہ موجود ہے۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے اعجاز احمد ایک نجی تعلیمی ادارے میں پڑھاتے ہیں اور انہیں تاریخ، معاشرت اور ثقافت میں گہری دلچسپی ہے۔

انہیں سکے جمع کرنے کا شوق بچپن میں ہوا جس میں بڑھتی عمر کے ساتھ جنون کی حد تک اضافہ ہوتا گیا۔

ان کے پاس اس وقت دنیا کے قریباً ڈیڑھ سو ممالک کے مختلف مالیت کے سکّے، کرنسی نوٹ، اور ٹکٹس ہیں جو انہوں نے جمع کر رکھے ہیں۔ ایسے ممالک جو یا تو دوسرے ممالک میں ضم ہوگئے یا پھر ختم ہو چکے ہیں ان کے سکے اور نوٹ بھی اعجاز احمد کے ذخیرے کا حصہ ہیں۔

تاریخ سے گہرا شغف رکھنے والے اعجاز احمد کے پاس پاکستان کا ایک ایسا کرنسی نوٹ بھی ہے جس پر قومی زبان کے علاوہ چاروں علاقائی زبانوں، پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی میں بھی ایک روپے کا لفظ لکھا ہوا ہے۔ یہ نوٹ 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے جاری کیا تھا جو ایک مہینے تک رائج الوقت رہنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس قلیل وقت میں کرنسی کو ایک دم سے علیحدہ کرنا ممکن نہ تھا اس لیے پہلے ایک سال تک پاکستان میں حکومتِ پاکستان کی مہر لگا کر متحدہ ہندوستان کے سکے اور کرنسی نوٹ استعمال کیے جاتے رہے جن پر بادشاہ جارج ششم کی تصویر ہوا کرتی تھی۔ پھر 1948 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً بعد ایک روپے مالیت کا پہلا پاکستانی کرنسی نوٹ جاری کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اعجاز احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پاکستانی تاریخ کا پہلا سو روپے مالیت کا نوٹ، جس پر قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر تھی، دسمبر 1957 میں جاری کیا جس پر اس وقت مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید احتجاج بھی ہوا تھا‘

انہوں نے بتایا کہ پہلے پاکستان کے کرنسی نوٹ پر اردو اور بنگالی دونوں زبانوں میں تحریریں ہوا کرتی تھیں اور جب دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر سے بنگالی زبان کی تحریر حذف کر دی گئی۔

اعجاز بتاتے ہیں کہ ان کے پاس ابتدائی مراحل کے پنچ مارک سکوں کی ایک وسیع پونجی موجود ہے۔ برِصغیر پاک و ہند کی گندھارا تہذیب، وادی سندھ کی تہذیب، آریاؤں اور آگے موریہ عہد سے لے کر مغلیہ دور تک کے تمام سکوں کا ذخیرہ بھی ان کی کلیکشن کا حصہ ہیں۔ سکھ اور مغلیہ ادوار کے بعد نو آبادیاتی دور اور قیام پاکستان کے بعد کے تمام سکوں، تاریخی ڈاک ٹکٹوں اور کرنسی نوٹوں کا ذخیرہ بھی ہے۔

پاکستان کے ڈاک ٹکٹوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ شروع میں جاری کیے جانے والے ٹکٹوں پر چاند کا رخ الٹا تھا جس کے بعد کے ٹکٹوں پر سمت درست کی گئی اور وہ دونوں اقسام کے ڈاک ٹکٹ بھی ان کے پاس موجود ہیں۔

اعجاز احمد نے بتایا کہ تاریخی نوادر جمع کرنے کا مشغلہ ان کی زندگی کی چار دہائیوں کا قصہ ہے جب کہ اس مشکل دور میں ان جیسے تہی دست شخص کے لیے سکے اور کرنسی نوٹ جمع کرنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے جہاں کافی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے وہیں ان کے حصول کے لیے دور دراز شہروں اور دیہات میں جا کر لوگوں سے ملنا ہوتا ہے اور اس کے  لیے شاید ہی انہوں نے پاکستان کا کوئی شہر چھوڑا ہو۔

وہ بتاتے ہیں کہ کرنسی حال کو ماضی کے ساتھ ملانے کا ایک ذریعہ بھی ہے جس سے انسانی تاریخ، سماج، معاشرت اور تہذیب و تمدن کو جانچنے کا موقع ملتا ہے اور یہ آنے والی نسلوں کو اپنے پیش رو کے حالات کا پتہ دیتے ہیں۔ ’مثال کے طور پر کسی سکے پر تیر کا نشان جنگ و جدل کی غمازی کرتا ہے جبکہ زیتون کا نشان امن کا کیونکہ ہر سکے اور نوادر کے پیچھے ایک پورا واقعہ ہوتا ہے‘

انہیں تشویش ہے کہ ماضی میں سکوں کی جمع پونجی پر دی جانے والی توجہ وقت کے ساتھ ساتھ مدھم ہو رہی ہے اور طلبہ اب ایسے مشاغل کے بجائے موبائل گیموں پر اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں سکوں اور قدیم نوادر سے عدم واقفیت اور دلچسپی کے باعث طالب علموں کا تاریخ کے مضمون سے رشتہ کمزور ہوتا گیا ہے اور اسے اب محض قصے کہانیوں تک محدود ایک ڈسپلن کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ ’زیادہ دور نہیں چند دہائیاں پہلے تاریخ کو سمجھنے کے لیے اساتذہ سکوں اور کرنسی نوٹوں سے ہی طلبہ کی توجہ معاشی تواریخ کی طرف مبذول کرواتے تھے مگر اب یہ سب بھی قصہِ پارینہ بن چکا ہے۔‘

موجود خزانے کی مالیت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی اس کا حساب نہیں لگایا ہے کیونکہ یہ کافی قیمتی خزانہ ہے لیکن ان کے نزدیک ان کی قیمت معنی نہیں رکھتی بلکہ سکوں کی قدامت اور نایاب ہونا زیادہ اہم ہے۔

اعجاز احمد ان نوادرات کو ملکی ورثہ سمجھتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ آنے والی نسلیں نوادر کے ذریعے آبا و اجداد کے طرز معاشرت سے واقف ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا