کرنل باسمتی چاول کیا واقعی کسی کرنل کی ایجاد ہے؟

باسمتی کا پہلا ذکر مشہور پنجابی شاعر وارث شاہ کی ہیر وارث شاہ میں سامنے آیا جو 1776 میں شیخوپورہ کے نزدیک جنڈیالہ شیر خان میں لکھی گئی۔

چاولوں پر  تحقیق کے لیے قائم کیے گئے  ادارے رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو کی ایجاد کردہ چاولوں کی مشہور اقسام (تصویر: صحافی سجاد حیدر)

رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو نے 1968 میں باسمتی چاول کی ایک نئی قسم باسمتی پاک مارکیٹ میں متعارف کروائی تھی۔

 رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو کے ڈائریکٹر چوہدری محمد رفیق نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس زمانے میں کرنل مختار جن کا تعلق حافظ آباد میں گوجرانوالہ ڈویژن سے تھا وہ گورنر پنجاب کے ایڈیشنل ڈیپٹی کمشنر تھے۔ کرنل صاحب خود بھی زمینداری کرتے تھے اور انہوں نے رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو سے باسمتی کا یہ نیا بیج لیا اور اپنی زمینوں میں کاشت کر دیا۔

عام طور پر مشہور ہے کہ چاول کی یہ قسم کرنل مختار نے ایجاد کی تھی، مگر رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے۔ 

کرنل صاحب سرکاری افسر تھے، نہ کہ زرعی سائنس دان۔ انہوں نے رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کالا شاہ کاکو کا بنایا ہوا نیا بیج خریدا اور اسے اپنی زمینوں پر لگانا شروع کر دیا۔ بعد میں انہوں نے یہی بیج آس پاس کے زمینداروں کو بھی بیچنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے لوگوں نے اس نئے بیج کو ’کرنل باسمتی‘ کا نام دے دیا۔

یہ بیج حیران کن صلاحیتوں کا حامل تھا۔ پیداوار بھی زیادہ اور خوشبو دار بھی۔ جلد ہی اس کی خوشبو ارد گرد کے زمینداروں تک پہنچ گئی، یوں ’باسمتی پاک‘ کے نام سے 1968 میں آنے والی چاولوں کی یہ نئی قسم کرنل باسمتی کے نام سے ملک بھر میں پھیل گئی۔

 رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو کے ڈائریکٹر چوہدری محمد رفیق فیصل آباد زرعی یونیورسٹی سے فارغ  التحصیل زرعی سائنس دان ہیں اور سپر باسمتی کے بانی ہیں، جو اس وقت پاکستان کے چاولوں کے زیر کاشت مجموعی رقبے میں سے 40 فیصد رقبے پر کاشت کیا جا رہا ہے۔

دنیا میں چاولوں کی کاشت کے اولین شواہد چین میں ملتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی چاولوں کی کاشت زمانۂ قدیم سے جاری ہے مگر باسمتی کا پہلا ذکر مشہور پنجابی شاعر وارث شاہ کی ہیر وارث شاہ میں سامنے آیا جو 1776 میں شیخوپورہ کے نزدیک جنڈیالہ شیر خان میں لکھی گئی۔

اس میں کھڑے کی بارات کو جو کھانا پیش کیا گیا اس میں باسمتی کا پلاؤ اور زردہ بھی شامل تھا۔

چاولوں پر باقاعدہ تحقیق کے لیے رائس سیڈ فارم کے نام سے ایک ادارہ 1926 میں کالا شاہ کاکو میں قائم کیا گیا تو اس وقت یہاں چاولوں کی 16 اقسام کاشت کی جا رہی تھیں جن میں پلمن، مشکن، باسمتی جھونی وغیرہ شامل تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سردار خان اس نئے ادارے کے پہلے سربراہ تھے جنہوں نے اس دور میں گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر مختلف اقسام کے 80 پودے منتخب کیے۔

ان پودوں پر تحقیق کر کے 1933 میں چاولوں کی چار نئی اقسام روشناس کروائیں جنہیں باسمتی 370، پلمن 246، مشکن 7 اور جھونا 349 شامل تھیں۔

نئی اقسام آنے سے کسان کا ایک مسئلہ حل ہو گیا کہ چاول کی فصل ایک ساتھ پکتی وگرنہ اس سے پہلے کچھ پودے جلدی پک جاتے اور کچھ دیر سے پکتے تھے۔

سردار خان کی بنائی ہوئی باسمتی 370 کو آج بھی خوشبو دار چاولوں کی ماں کہا جاتا ہے۔

رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے 1926 میں اپنے قیام سے لے کر اب تک چاولوں کی 29 اقسام روشناس کروائی ہیں جن میں سے 2021 میں متعارف کروائی جانے والی کالا شاہ کاکو 111 ایچ سب سے نئی ہے جو باسمتی کی دنیا بھر میں پہلی ہائبرڈ قسم ہے اور اس کی پیداوار 115 من فی ایکڑ ہے جو پہلے والی اقسام سے 30 فیصد زیادہ ہے۔

دنیا میں چاول کی کل پیداوار 49.7 کروڑ ٹن ہے اور یہ دنیا کے 119 ممالک میں کاشت کیا جاتا ہے۔ اس میں سے90 فیصد ایشیا میں کاشت ہوتا ہے۔ 

انڈیا چاولوں کی برآمد میں ڈیڑھ کروڑ میٹرک ٹن کے ساتھ پہلے، جب کہ پاکستان 43 لاکھ میٹرک ٹن کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔

پاکستان کی کل پیداوار 82 لاکھ ٹن ہے جس میں سے 39 لاکھ ٹن اس کی اپنی کھپت ہے۔ 

پاکستان سالانہ تقریباً دو ارب ڈالر کے چاول برآمد کرتا ہے جس میں اس سال 30 فیصد اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں چاولوں کا زیرکاشت رقبہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں چاولوں پر تحقیق کے نتیجے میں جو نت نئے بیج روشناس ہوئے ان کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں بھی تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

باسمتی 370 جس کی پیداوار 30 من فی ایکڑ تھی اب پنجاب باسمتی کی 80 من جبکہ کالا شاہ کاکو 111 ایچ کی 120 من فی ایکڑ تک پہنچ چکی ہے اسی طرح 1933 میں روشناس کرائی جانے والی باسمتی 370  پکنے میں 170 دن لیتی تھی جبکہ کالا شاہ کاکو پکنے میں 105 دن اور کسان باسمتی صرف 98 دن لیتا ہے۔

اس طرح اس ادارے سے وابستہ سائنس دانوں کی کاوشوں سے یہ ممکن ہوا کہ کسان سال میں دو یا تین فصلیں چاول کے ساتھ کاشت کر سکتے ہیں جبکہ اس سے قبل سال میں ایک فصل کی کاشت ہی ممکن تھی۔

اس تمام تر کامیابی کے پیچھے جس ادارے کا ہاتھ ہے اس کے پاس وسائل کی کمی ہے، وہاں آدھی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ 1926 میں 625 ایکڑ پر قائم ہونے والے ادارے کا رقبہ سکڑ کر 506 ایکڑ رہ گیا ہے۔

مگر اس کے باوجود یہ ادارہ نہ صرف پاکستان میں چاولوں کی پیداوار بڑھانے میں پیش پیش ہے بلکہ بھارت کی جانب سے باسمتی کے دانشورانہ حقوق اپنے نام کرنے کے خلاف پاکستان کے مقدمے کو تاریخی اور تحقیقی حوالوں سے اپنے حق میں کرنے کی جنگ بھی لڑ رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق