سی این این کے مطابق 62 سالہ امریکی شہری کیون سٹرکلینڈ کو 1979 میں تہرے قتل کا مرتکب قرار دے کر 50 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، مگر گذشتہ روز انہیں رہا کر دیا گیا۔
ریاست مزوری کے ایک جج نے سٹرکلینڈ کی سزا منسوخ کر کے ان کی رہائی کے احکامات جاری کر دیے۔ اس کے بعد لوگوں نے سٹرکلینڈ کے آن لائن عطیات جمع کرنا شروع کر دیے۔
’گو فنڈ می‘ نامی ویب سائٹ کے ذریعے جمع ہونے والے ان عطیات کی مالیت دس لاکھ ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔
امریکی ادارے نیشنل رجسٹری آف ایگزانریشن (بریت کا قومی ادارہ) کے ریکارڈ کے مطابق جن لوگوں کو سزا کے دوران بری کیا گیا، ان میں سب سے لمبی سزائیں کاٹنے والوں میں سٹرکلینڈ کا نمبر چھٹا ہے۔
اس ادارے کی فہرست کے مطابق پہلے نمبر پر اینتھنی مازا ہیں، جنہیں 47 برس سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد بری کیا گیا تھا۔
امریکی میڈیا کے مطابق سٹرکلینڈ کو 1978 میں ہونے والے ایک تہرے قتل میں قصوروار قرار دیا گیا تھا۔
اس واقعے میں سنتھیا ڈگلس ایک خاتون کو گولی لگی تھی جنہوں نے بعد میں گواہی دی کہ سٹرکلینڈ جائے واردات پر موجود تھے۔ ان کی شناخت کے بعد ہی سٹرکلینڈ کو سزا ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
البتہ بعد میں ڈگلس نے کہنا شروع کر دیا کہ انہوں نے شناخت میں غلطی کی تھی۔ سٹرکلینڈ ہمیشہ سے جرم کے ارتکاب سے انکار کرتے رہے ہیں۔
ریاست مزوری کے ویسٹرن ڈسٹرکٹ کورٹس آف اپیل کے جج جیمز ویلش نے کہا کہ سٹرکلینڈ کو بغیر کسی جسمانی ثبوت کے سزا سنائی گئی جس سے جائے واردات پر ان کی موجودگی ثابت ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث ایک اور شخص نے کہا تھا کہ سٹرکلینڈ نے جرم کا ارتکاب نہیں کیا، جب کہ واحد عینی شاہد نے بعد میں اپنی شہادت سے دستبردار ہو گئی تھیں۔
سٹرکلینڈ نے رہا ہونے کے بعد سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ جیل میں ٹی وی دیکھ رہے تھے جب انہیں رہائی کی خبر ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ رہائی کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی ماں کی قبر پر گیا۔
’میری ماں مٹی کے نیچے ہے اور مجھے اس کی قبر پر جانے کا موقع نہیں ملا۔۔۔ میں نے وہ آنسو دوبارہ بہائے جو اس وقت بہائے تھے جب مجھے ایسے جرم کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا جو میں نے نہیں کیا تھا۔‘
سٹرکلینڈ کی ماں کا انتقال اس سال اگست میں ہوا تھا۔