گذشتہ ہفتے گوانتاناموبے کے ایک پاکستانی نژاد قیدی ماجد خان کو 26 سال قید کی سزا سنانے والے سات اعلیٰ امریکی فوجی افسران نے اتوار کو ایک خط شائع کیا ہے، جس میں قیدی کے لیے رحم کی اپیل کرتے ہوئے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے تشدد کو امریکہ کے نام پر ’دھبہ‘ قرار دیا ہے۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد گرفتار ہونے والے پاکستانی نژاد امریکی شہری ماجد خان گوانتاناموبے کے پہلے قیدی ہیں جنہوں نے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی تفصیل عدالت کو بتائی۔
جنگی جرائم کے مقدمے میں سزا مقرر کرنے کے لیے سماعت کے دوران انہوں نے جیوری کے ارکان کو بتایا تھا کہ کیسے ان پر سی آئی اے کی خفیہ جیلوں، جنہیں ’بلیک سائٹس‘ کہا جاتا ہے، میں کئی دن تک تشدد جاری رہا اور تفیش کار ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔
41 سالہ ماجد خان نے عدالت کو بتایا کہ انہیں چھت سے کئی دنوں تک برہنہ لٹکایا گیا اور کئی دنوں تک جگائے رکھنے کے لیے بار بار برف والا پانی پھینکا گیا۔ ان کا سر پانی میں ڈبوئے رکھا گیا یہاں تک کہ وہ ڈوبنے کے قریب پہنچ گئے اور پھر سر باہر نکالتے ہی تفتیش کار ان کے منہ اور ناک میں مزید پانی ڈال دیا کرتے تھے۔
ماجد کے مطابق انہیں مارا گیا، کئی بار زبردستی انیما (پیٹ خالی کرنے کی دوا) دیا گیا، جنسی تشدد کیا گیا اور بھوکا رکھا گیا اور یہ سب کچھ ایسی بیرون ملک جیلوں میں ہوا، جن کا پتہ خفیہ رکھا گیا۔
ماجد خان کو کیوبا میں واقع امریکی بحریہ کے اڈے پر گذشتہ ماہ 29 اکتوبر کو سزا سنائی گئی۔ اس سے پہلے انہوں نے 2002 میں القاعدہ کی منصوبہ بندی میں مدد کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
خط میں کیا ہے؟
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی فوجی افسروں کی جانب سے ہاتھ سے لکھا گیا خط پہلی بار اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے شائع کیا ہے، جس میں سزا سنانے والی جیوری کے آٹھ ارکان میں سے سات نے ماجد خان پر ہونے والے تشدد کو’اخلاقیات کے امریکی معیار پر دھبہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ گوانتاناموبے میں فوجی کمیشنز نے خط کے حقیقی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
اس خط میں فوجی افسروں نے لکھا: ’ذیل میں درج پینل ارکان ماجد شوکت خان کے معاملے میں ان کے لیے رحم کی سفارش کرتے ہیں۔‘
ان افسران میں سے چھ کا تعلق امریکی فوج اور بحریہ سے ہے جبکہ ایک میرین ہیں۔ ان افسران نے جیوری ارکان کے نمبروں کے ساتھ خط پر دستخط کرتے ہوئے اپنی شناخت کو خفیہ رکھتے ہوئے لکھا: ’ماجد خان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے ان جرائم کا اعتراف کیا اور اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول کی۔ مزید برآں انہوں نے متاثرین اور ان کے خاندانوں پر پڑے والے اثرات پر ندامت کا اظہار کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو واضح نہیں ہے کہ امریکی فوجی افسران کے خط سے کیا فرق پڑ سکتا ہے لیکن ایک افسر کو چھوڑ کر فوج کے حاضر سروس افسران پر مشتمل باقی ارکان کی طرف سے اختیار کیا گیا مؤقف قابل ذکر ہے۔
اس سے پہلے ہونے والے ایک معاہدے کے تحت، جس سے جیوری کے ارکان واقف نہیں تھے، 19 سال امریکی قید میں گزارنے کے بعد ماجد خان کو اگلے سال رہائی مل سکتی ہے۔ ماجد خان کی طرف سے خفیہ معلومات راز میں رکھنے پر اتفاق کے بعد انہیں اپنی روداد بیان کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
انہوں نے 39 صفحات پر مشتمل بیان میں اپنے اوپر پاکستان، افغانستان اور ایک تیسرے ملک میں ہونے والے تشدد کے بارے میں بتایا۔ انہیں مارچ 2003 میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔
امریکی فوجی افسران کے خط کے مطابق: ’ماجد خان کو تفتیش کے منظور شدہ جدید طریقوں سے کہیں زیادہ جسمانی اور نفسیاتی بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس بدسلوکی کی انٹیلی جنس یا دوسرے امریکی مفادات کے لیے کسی ٹھوس افادیت کے اعتبار سے کوئی عملی حیثیت نہیں ہے۔‘
خط لکھنے والے فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ’اس وقت اپنی والدہ کی موت کے غم میں مبتلا نوجوان شدت پسندوں کی جانب سے بھرتی کے عمل کے عمل کا آسان ہدف تھے۔ اب 41 سال کی عمر میں انہیں پچھتاوا ہے اور ان کی جانب سے مستقبل میں شدت پسندی کے مظاہرے کا خطرہ نہیں ہے۔‘
پاکستان میں پروان چڑھنے والے ماجد خان 16 سال کی عمر میں امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ ان کے مطابق صورت حال کے کمزور ادارک کی وجہ سے انہوں نے القاعدہ کی مدد کا فیصلہ کیا۔ ماجد خان نے عدالت کو بتایا: ’اب میں 20 سال پہلے والا کمزور نوجوان نہیں ہوں، جس پر اثر انداز ہوا جاسکے۔ میں القاعدہ اور دہشت گردی کو مسترد کرتا ہوں۔‘
تشدد کے بارے ان کی گواہی کی 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد سی آئی اے کی جانب سے تشدد سے کام لینے کے معاملے میں امریکی سینیٹ کی طرف کی گئی تحقیقات سے توثیق ہوتی ہے۔