نئی القادر یونیورسٹی توہمات سے نجات دے سکے گی؟

دہائیوں سے ہمارے لیے روایت سے اختلاف کرنے والی سائنس یہودی سازش اور مغرب کا جال ہے۔ آج بھی اسی سوچ پہ بڑی تعداد میں لوگ قائم ہیں، اور اس پہ حزن ہے نہ ملال ہے۔

حیدرآباد میں سورج گرہن کے دوران ایک خاتون اپنے خصوصی بچے کے ساتھ بیٹھی ہیں جو دریائے سندھ کے کنارے ریت میں آدھا دفن ہے۔ پاکستان میں کچھ  والدین کا خیال ہے کہ سورج کا مکمل گرہن ان کے معذور بچوں کا علاج کر دے گا (اے ایف پی فائل)

آج سے پانچ سو سال پہلے میکسیکو میں ایزٹک نام کی ایک طاقتور سلطنت قائم تھی۔ وہاں کے لوگ سورج کے دیوتا کی پوجا کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ دیوتا ان سے تب ہی خوش رہ سکتا ہے جب اس کے لیے انسانوں کو قربان کیا جاتا رہے۔

ان کے سالانہ تہوار میں ہزاروں لوگوں کو بلی چڑھایا جاتا جو عمومی طور پر اردگرد کے علاقوں سے اٹھا کر لائے جاتے تھے۔

ایزٹک تہذیب کے باسیوں کا خیال تھا کہ مشرق کی جانب سے ان کا دیوتا انسانی روپ میں ایک دن زمین پر ضرور آئے گا جس کے بعد وہ ہر طرح کی فکر سے آزاد ہو جائیں گے۔

سولہویں صدی کے اوائل میں کورٹیز نام کا ایک ہسپانوی مہم جو وہاں پہنچا تو ایزٹک بادشاہ نے دیوتا سمجھ کر اس کا استقبال کیا۔ لیکن ’دیوتا‘ کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔

کورٹیز اور اس کے ساتھیوں نے مال و دولت کی خاطر ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، شہر کے شہر اجاڑ دیے اور بادشاہ کو بھی قتل کر دیا۔ یوں تھوڑے ہی عرصے میں ایک عظیم سلطنت زوال پذیر ہوئی۔

کہا جاتا ہے کہ کورٹیز کی فتح میں سب سے زیادہ عمل دخل ان مقامی لوگوں کا تھا جو بادشاہ کی روز کی انسانی قربانی سے تنگ آ چکے تھے۔ جہالت کے پیروکار معاشرے کی خونی رسومات سے بیزار یہ لوگ کورٹیز کے آتے ہی اس کے ساتھ جا ملے اور سلطنت کی بربادی میں اپنا حصہ ڈالا اور یوں توہم پرستی کی دیمک نے ایک بڑی سلطنت کی عظمت کو چاٹ کھایا۔

تاریخ دان یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ اگر ایزٹک معاشرہ انسانی قربانی کا تعلق دیوتا کی خوشی سے جوڑنے کے وہم کا شکار نہ ہوتا تو یہ تہذیب ابھی اور قائم رہ سکتی تھی۔

توہم، لاعلمی کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ خوف کی گود میں پلا یہ ایک ایسا شک ہے جو جوان ہو کر یقین کامل بن جاتا ہے۔ تذبذب، گمان اور بےیقینی اس کی پرورش میں مدد کرتے ہیں اور مذہب کی آڑ اس کو معاشرے میں پنپنے کے لیے مطلوبہ حفاظت فراہم کرتی ہے۔

معروف مؤرخ کرس ہارمن اپنی کتاب ’اے پیپلز ہسٹری آف دا ورلڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ 10 ہزار سال قبل جب کاشت کاری شروع ہوئی تو لوگوں کے پاس وافر مقدار میں اناج جمع ہونے لگ گیا۔ اس اناج کی تقسیم علاقے کے معتبر افراد کے حوالے کی جاتی۔ یہ لوگ کوئی اور کام نہیں کرتے تھے۔

سو، رات دن یہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور اجرام فلکی کا مشاہدہ کرتے۔ اس مشاہدے کی وجہ سے انہیں بارش، قحط سالی، سورج اور چاند گرہن کے بارے میں پیشگی اندازہ ہونے لگا۔

اس مشاہداتی علم کو ان لوگوں نے ذاتی فوائد کے حصول کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے یہاں کچھ لوگ کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کالے بکرے کو پیر صاحب کی نذر نہیں کیا جائے گا تو اولاد نہیں ہوگی وغیرہ۔

عام لوگوں نے ان اناج کے محافظوں کو ان کی پیش گوئیوں کے سبب مقدس خیال کرنا شروع کر دیا۔ ان محافظوں نے پھر عوام کی سادگی کا خوب فائدہ اٹھایا۔ یوں سماج میں لاعلمی کی بنیاد پر توہمات رواج پانے کا آغاز ہوا جو اب بھی ان معاشروں میں بکثرت موجود ہے جہاں علم کے حصول کو ترجیح نہیں دی جاتی۔

درختوں کے قریب نہ جائیں کیونکہ ان میں روحیں بستی ہیں، ٹوٹا ہوا آئینہ آپ کو سات سال کی بدقسمتی دے سکتا ہے، اگر کالی بلی نے راستہ کاٹ لیا تو آپ کی خیر نہیں، آدھی رات کے بعد چیونگم چبانے سے وہ مردہ گوشت میں تبدیل ہو سکتی ہے وغیرہ یہ وہ چند توہمات ہیں جو صدیوں سے دنیا کے مختلف ممالک اور تہذیبوں پر اپنے اثرات چھوڑتی آ رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول میر تقی میر:

یہ توہّم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے، جو اعتبار کیا

تمام توہمات کا ماخذ جہالت اور کم علمی ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ذہنی رفعت کا واحد کلیہ حصول علم اور روایتی اقدار کی اندھی پیروی کے برعکس فہم و دانش کا استعمال ہے۔ اسی لیے ایڈم سمتھ نے کہا تھا کہ سائنس، توہم پرستی کے زہر کا تریاق ہے۔

لیکن دہائیوں سے ہمارے لیے روایت سے اختلاف کرنے والی سائنس یہودی سازش اور مغرب کا جال ہے۔ آج بھی اسی سوچ پہ بڑی تعداد میں لوگ قائم ہیں، اور اس پہ حزن ہے نہ ملال ہے۔

یہاں، جدت پسند کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے اور رسوم کے باغی کو گستاخ کہہ کر چپ کے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ہم اگر ایزٹک تہذیب جتنے توہم پرست نہیں ہیں تو قدیم یونانیوں جیسے روشن خیال بھی نہیں۔ ماضی تو گم کر بیٹھے ہیں، قابلِ بیاں اب حال بھی نہیں۔

کتنے ہی بےسروپا عقائد، رسوم اور توہمات ہیں جنہوں نے ہمارے سماجی تانے بانے پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کی گجرات میں افتتاح کردہ شیخ عبدالقادر جیلانی یونیورسٹی توہمات اور دقیانوسی تصورات سے ڈسے ہوئے اس معاشرے میں عبد القادر جیلانی، شاہ ولی اللہ اور شیخ احمد سرہندی جیسے اکابرین کی تعلیمات کا تریاق دے سکے گی؟

تعلیمی سال کے آغاز سے پہلے ہمیں عظیم مقصد کے لیے قائم کی گئی اس جامعہ کے نصاب اور اساتذہ کی قابلیت کا خاص خیال رکھنا ہوگا تاکہ منصوبے کے اغراض کی تکمیل ہو سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ