مفت آن لائن علاج کرنے والی ماہر نفسیات سے ملیے

امریکہ میں مقیم پاکستانی ماہر نفسیات صوفیہ جعفری ’مجھے سنو‘ کے نام سے ایک آن لائن چینل چلاتی ہیں، تاکہ سوشل میڈیا صارفین کے مسائل اور ذہنی دباؤ میں کمی لانے میں مدد فراہم کرسکیں۔

’اگر میرے پاس علم ہے تو مجھے اس کو آگے پھیلانا چاہیے، تاکہ دوسروں کا بھی بھلا ہو اور بحیثیت ایک نفسیاتی ماہر میں یہی کر رہی ہوں۔‘

امریکہ میں مقیم پاکستانی ماہر نفسیات صوفیہ جعفری ’مجھے سنو‘ کے نام سے ایک آن لائن چینل چلاتی ہیں، تاکہ سوشل میڈیا صارفین کے مسائل اور ذہنی دباؤ میں کمی لانے میں مدد فراہم کرسکیں۔

ذہنی صحت پر کام کرنے والی عالمی ویب سائٹ اومیکس آن لائن کے مطابق ’مینٹل ہیلتھ ‘ (ذہنی صحت) پاکستان میں سب سے زیادہ نظرانداز کیا جانے والا شعبہ ہے، جہاں ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد آبادی معمولی اور معتدل ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے اور جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔

اومیکس آن لائن ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں ہر 10 ہزار کی آبادی کے لیے صرف ایک سائیکاٹرسٹ ہے جب کہ ہر 18 کروڑ آبادی کے لیے چار ذہنی امراض کے ہسپتال ہیں۔

رواں سال اکتوبر میں ذہنی امراض کا دن منانے کی تھیم ’اس غیر مساوی دنیا میں ذہنی صحت‘ تھا۔

 تاہم ہرسال کی طرح اس سال بھی ذہنی امراض کی فہرست میں اینگزائیٹی اور ڈپریشن پر زیادہ توجہ مرکوز رہی۔

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق ڈپریشن کئی بیماریوں کی جڑ ہے، جو خودکشی کے واقعات کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔

صوفیہ جعفری نے ذہنی صحت کے موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ’ہر سال 10 دنوں کی ایکٹویزم کے موقع پر سرکاری وغیر سرکاری ادارے اور معاشرے کے مختلف افراد مختلف مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

 انہوں نے بتایا کہ وہ اس موقعے پر ذہنی صحت کے حوالے سے پاکستانیوں میں شعور اجاگر کرنا چاہتی ہیں۔

ان کے مطابق: ’ہمارے معاشرے میں ذہنی کیفیت کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ نفسیاتی مسائل کو ایک کمزوری سمجھا جاتا ہے اور اسی لیے لوگ اس حوالے سے ایک دوسرے سے بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ذہنی امراض یا نفسیاتی مسائل سے دوچار ان لوگوں کو کئی حوالوں سے قصوروار سمجھا جاتا ہے۔‘

صوفیہ کا کہنا تھا کہ عوام کا نفسیاتی مسائل کی طرف رجحان اور عقائد کی وجہ سے اکثر اوقات ایک خطرناک صورتحال بن جاتی ہے، لہذا انہوں نے ایک ایسا طریقہ کار ڈھونڈا جس کی وجہ سے وہ ’ذہنی صحت‘ کو پاکستانی معاشرے میں ’نارملائز‘ کرسکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بحیثیت مینٹل ہیلتھ پروفیشنل میرا ماننا یہ ہے کہ نفسیاتی مسائل کو کم کرنے اور ان کو نارملائز کرنے کا بہترین حل اس موضوع پر اور مسائل پر زیادہ سے زیادہ بات کرنا ہے۔ ’مجھے سنو‘ ایک محفوظ ذریعہ ہے۔ جہاں لوگ بغیر کسی ڈر وخوف کے ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔‘

صوفیہ کے مطابق ’مجھے سنو‘ ایک انسٹا گرام پیج ہے جہاں لوگ اپنے دل کی بات کرتے ہیں اور جب لوگ ان کو پڑھتے ہیں تو وہ انہیں مشورے اور تسلیاں دیتے ہیں۔ کبھی کبھار مسائل کا حل بھی پیش کرتے ہیں اور کچھ نیک لوگوں کی وجہ سے کئی لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔

صوفیہ جعفری نے بتایا کہ ان کے چینل کے ذریعے اپنے مسائل بیان کرنے والی بعض خواتین جو گھریلو تشدد کا شکار تھیں، انہیں ایک حل ملا اور وہ ایک محفوظ مقام تک پہنچ گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاشی بحران میں کئی مردوں کی نوکریاں بھی گئیں اور ’مجھے سنو‘ کے ذریعے انہیں نوکریاں بھی ملی ہیں۔ کئی لوگوں کو مالی مدد ملی ہے اور کئی لوگوں کو نفسیاتی مسائل کے حل کی طرف جانے کا ایک جذبہ بھی ملا ہے۔ ‘

صوفیہ جعفری کے مطابق نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے وہ مستقبل میں بھی مفت اور فی سبیل اللہ کام کریں گی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں نوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کو سنیں گی اور ان کو رہنمائی دیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت