مردانگی ذہنی بیماری کے اعتراف میں ہے

پاکستان میں کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ذہنی دباؤ کے باعث عورتوں کی بہ نسبت مرد زیادہ خودکشی کرتے ہیں اور اس کی شرح ایک کے مقابلے پر چھ ہے۔

یہ عالمی سطح پر مسئلہ ہے کہ مردوں سے توقعات رکھی جاتی ہیں اور سماج میں ان کا روایتی کردار ایسا ہے جس کے باعث مرد اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں کسی سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں (پیکسلز)

آصف (فرضی نام) پڑھے لکھے ہیں اور بہت اچھی نوکری کر رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ مہرین٭ بھی تعلیم یافتہ ہیں اور دونوں ہی اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔

دونوں خوش گپیوں کے ماہر اور ہنس مکھ جوڑے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ دونوں ہی اپنے دوستوں کے سرکل سے دور ہونے لگے۔

چند ہفتے قبل ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ آج کل مہرین آصف  پر زور ڈال رہی ہے کہ وہ ماہر نفسیات کے پاس جائے اور کچھ سیشن کرے۔ وجہ کیا ہے؟

مہرین کے بقول آصف کو نوکری میں کچھ مشکلات پیش آ رہی ہیں جس کے باعث وہ گھر میں چڑچڑا ہوتا ہے۔ کوئی بھی بات کرو اس سے تو ایسا لگتا ہے جیسے اس نے سنی ہی نہیں۔ کئی بار تو وہ جسمانی طور پر تو موجود ہوتا ہے لیکن خلا میں گھورتا رہتا ہے۔ نہ اس کا دل دفتر جانے کا چاہتا ہے اور نہ ہی گھر میں وہ کسی سے بات کرتا ہے۔ کبھی اس کا موڈ اتنا خوشگوار ہو جاتا ہے اور پھر اچانک سے ایک سو اسی ڈگری گھوم جاتا ہے۔

نومبر کا مہینہ دنیا بھر میں مردوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے مختص ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق عالمی سطح پر 20 فیصد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 34 فیصد ہے۔ پاکستان میں 22 کروڑ عوام کے لیے محض پانچ سو ماہر نفسیات ہیں جس کے باعث ذہنی امراض کا علاج یا تو وقت پر نہیں ہو پاتا یا پھر ہوتا ہی نہیں ہے اور 90 فیصد ذہنی امراض میں افراد کا علاج ہوتا ہی نہیں ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان امراض میں ڈپریشن، نشہ، شیزوفرنیا، دہری شخصیت، پسِ صدمہ ذہنی و جذباتی دباؤ شامل ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 36 فیصد افراد بے چینی اور ڈپریشن کے مریض ہیں۔ اس کی بڑی وجہ خاندان والوں کو اپنی کیفیت کے بارے میں نہ بتانا یا اگر بتایا جائے تو وہ سمجھنے سے قاصر ہیں، سماج میں فٹ نہ ہو سکنا، غیر مستحکم معاشی حالات، بے روزگاری اور غربت شامل ہیں۔

یہ عالمی سطح پر مسئلہ ہے کہ مردوں سے توقعات رکھی جاتی ہیں اور سماج میں ان کا روایتی کردار ایسا ہے جس کے باعث مرد اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں کسی سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ عورتوں کے حوالے سے دقیانوسی تصورات سے عورتوں کو نقصان پہنچتا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے اور اس پر بات بھی نہیں کرنا چاہتے کہ مردوں کے بارے میں ان سے جڑے روایتی کردار، دقیانوسی تصورات اور ان سے جڑی توقعات ان کے ذہن پر کیا اثر ڈالتی ہیں۔

مردوں کو عام طور پر کمانے والے، مضبوط، بااثر ہونے کی نظر ہی سے دیکھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی عیب ہے یا نہیں لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اس کردار کو نبھاتے ہوئے مرد کسی قسم کی مدد، کسی سے اپنے ذہنی تناؤ کے حوالے سے بات کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب اس کے گھر والوں اور دوستوں کو معلوم ہوتا ہے تو کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

ذہنی امراض سے نمٹنے کے لیے مرد جو طریقے استعمال کرتے ہیں وہ کافی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ جیسے کہ وہ دوستوں یا احباب سے بات کرنے کے بجائے منشیات یا شراب نوشی کا سہارا لیتے ہیں جو ان کو فائدہ پہنچانا تو دور کی بات ان کو مزید ذہنی امراض کے قابو میں لے جاتی ہے۔

پاکستان میں کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ذہنی دباؤ کے باعث عورتوں کی بہ نسبت مرد زیادہ خودکشی کرتے ہیں اور اس کی شرح ایک کے مقابلے پر چھ ہے۔ یہ اعداد و شمار عالمی اعداد و شمار سے مسابقت رکھتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال 13 سے 14 ہزار افراد خودکشی کرتے ہیں، جبکہ خودکشی کی ناکام کوشش کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

سنہ 2002 سے 2019 تک مردوں میں خودکشی کی شرح 13 فیصد سے کم نہیں ہوئی جبکہ عورتوں میں یہ شرح 4.9  سے کم ہوکر 4.3 فیصد رہ گئی ہے۔

آصف بھی سماجی کردار، مرد کا مضبوط ہونا، کنٹرول میں رہنا، مرد روتے نہیں ہیں، جیسی دقیانوسی باتوں میں پھنسا ہوا ہے۔ میں مرد ہوں، خاندان کا سربراہ ہوں، میں کیسے کمزور دکھائی دے سکتا ہوں۔ میں کیسے ماہر نفسیات کے پاس جا سکتا ہوں؟ خاندان والے اور دوست کیا کہیں گے؟ میں پاگل نہیں ہوں۔

ذہنی امراض کے حوالے سے قومی سطح پر مہم چلائے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ لوگوں اور بالخصوص مردوں کو بات کی آگاہی کرانے کی ضرورت ہے کہ ذہنی امراض کو ہلکا نہیں لیا جا سکتا۔ مدد لینے سے مردانگی میں کمی نہیں واقع ہو گی اور نہ ہی اس امر کو قبول کرنے سے مردانگی پر کوئی اثر پڑے گا کہ ہاں مجھے ذہنی بیماری ہے۔ بلکہ مردانگی اس میں ہے کہ اپنی ذہنی بیماری کا اعتراف کیا جائے اور علاج۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ