’چھلاوہ‘ وہ بلا ہے جو سمجھ نہ آئے

اگر اس فلم کو باکس آفس پر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ اس کے گانے ہیں۔

اس فلم کی کہانی بس یہ  ہے کہ کسی طرح ایک لڑکی  باپ کو قائل کرکے  اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرتی ہے (بشکریہ فلم ’چھلاوہ‘)

عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ’چھلاوہ‘ مہوش حیات کوتمغہ امتیاز ملنے کے بعد ان کی پہلی فلم ہے اس لیے کچھ زیادہ توقعات وابستہ رہیں۔

’چھلاوہ‘ کی کہانی ایک ایسے باپ رفاقت علی چوہدری (محمود اسلم) کی ہے جو اپنی بیٹیوں کی خاندان سے باہر شادی کرنے کا قائل نہیں، اسے اس بات کا افسوس ہے کہ اس نے اپنی بڑی بیٹی زویا (مہوش حیات) کو شہر پڑھنے کیوں بھیجا، جہاں وہ اپنا دل کسی کودے بیٹھی۔ چوہدری صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا ہے۔

فلم کی کہانی بس اتنی ہی ہے کہ کسی طرح زویا چوہدری رفاقت کو قائل کرکے اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرتی ہے جبکہ چوہدری صاحب اس کی شادی اپنے نالائق بھتیجے سے کروانا چاہتا ہے۔

تاہم، فلم کی سب سے بہترین چیز اس کی موسیقی اور رقص ہے۔ شیراز اُپل کے گانوں نے ’چھلاوہ‘ جیسا شادی نمبر اور ’چڑیا‘ جیسا پارٹی نمبردیا جس پر وہاب شاہ نے بہت عمدہ کوریوگرافی کی۔ دونوں گانے اچھے فلمائےگئے ہیں اور مہوش حیات ان گانوں پر کھل کر ناچی ہیں۔

بدقسمتی سے بات یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ ہدایت کار وجاہت رؤف کی پہلی دو فلموں میں خصوصی ’ڈانس نمبر‘ (جی ہاں کیونکہ تمام ہدایت کار اب’آئٹم نمبر‘ کو’ڈانس نمبر‘ کہنے پر اصرار کرتے ہیں) کی  کوئی وجہ تخلیق ہوتی تھی،  لیکن اس مرتبہ وہ بھی نہیں تھی۔

زویا اور سمیر راستہ بھٹک کر نہ جانے کہاں نکل جاتے ہیں کہ وہاں ’چڑیا‘ نامی ڈانس نمبر کرنا پڑتا ہے۔ وہاں کون لوگ تھے، خواتین نے زویا کولےجا کر کپڑے بدلوا کر کیوں پنڈال میں ناچنے کے لیے چھوڑدیا، کچھ نہیں پتہ، شاید کریٹیولائسنس کے نام پرہوا ہو۔

فلم کا پہلا حصہ کچھ بہتر ہے مگر دوسرے میں تو کہانی پٹری سے اتر جاتی ہے۔ اگر فرداً فرداً کاکردگی پربات کریں تو تمام اداکاروں نے اپنے طور پر ایک برے سکرپٹ کے باوجود اچھا کام کیا۔

مہوش حیات نے اپنے کردار زویا سے جس حد تک ممکن تھا انصاف کیا مگر کمزور سکرپٹ میں کوئی کتنی جان ڈال سکتا ہے۔ اس فلم میں مہوش حیات فلم ’نہ معلوم افراد‘ کے آئٹم نمبر’بلی‘ کے بعد پہلی بار کُھل کر ناچی ہیں۔ فلم کےدونوں گانے ’چھلاوہ‘ اور ’چڑیا‘ میں انہوں نے خود پر سے نگاہ ہٹنے نہیں دی۔

فلم ’چھلاوہ‘ میں باپ بیٹی کے جذباتی مناظر عمدگی سے فلمائےگئے، تاہم مہوش کے رومانوی مناظرزیادہ نہیں تھے۔ محموداسلم صاحب ایک منجھے ہوئےانتہائی سینیئر اداکار ہیں، اپنے تجربے سے انہوں نے فائدہ اٹھایا اور ایک روایتی باپ کا کردار مخصوص پیار اور غصے سے ادا کیا۔

بطور مرکزی ہیرو یہ اظفر رحمان کی پہلی فلم تھی اور توقع کے برخلاف سکرین پر کافی بہتر نظر آئے، مگر ان کا کردار ’سمیر‘ مکمل طور پر بے جان تھا۔ وہ محبوبہ کا فون نہ اٹھانے پر خودکُشی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو محبوبہ کی جانب سے اسے چھوڑنے کا کہنے پر کوئی ردعمل تک ظاہر نہیں کرتا۔

وہ بھاگ نکلنے کا کہتی ہے تو بھاگ نکلتا ہے اور فلم کا کلائمیکس تو ان کی ساری محنت پر پانی پھیردیتا ہے۔

اسد صدیقی نے اظفر رحمان کے دوست کا مختصر کردارمناسب انداز میں ادا کیا۔ ان کا صوفی پیر کا گیٹ اپ البتہ کافی عامیانہ تھا جو بہتر ہوسکتا تھا۔

اگر اس فلم سے پاکستانی فلمی صنعت کو کچھ ملا ہے تو وہ زارا نور عباس ہیں۔ یہ زارا کی دوسری مگر ریلیز ہونےوالی پہلی فلم ہے۔ (ان کی پہلی فلم ’پرے ہٹ لو‘ بقرعید پر ریلیز ہوگی)۔

’چھلاوہ‘ میں زارا نے مہوش کی چھوٹی بہن حیا کا کردار بہت ہی خوبصورتی سے ادا کیا۔ حیا ایک نوجوان لڑکی ہے جو سارا دن فلمی گانوں پر ناچتی رہتی ہے۔

چلبلی پٹاخہ سی لڑکی، جو عشق کے خواب دیکھتی ہے۔ یہ کردار مشہور ٹی وی  سیریز ’آذر کی آئے کی بارات‘ کی سارا چوہدری جیسا ہے جسے بشرٰی انصاری نے نبھایا تھا۔ حیا جیسے اسی کردار کا نوجوان ورژن ہے۔ یہاں شاید یہ ذکر اہم ہو گا کہ زارا بشرٰی انصاری کی بھانجی ہیں۔

ہدایت کار وجاہت رؤف کے بیٹے عاشر وجاہت نے مہوش اور زارا کے بھائی کا کردار ادا کیا، اگرچہ ان کے چند ہی سین تھے مگر وہ ان میں کافی ممتاز رہے۔

وجاہت نے کبھی اپنی فلموں کو حقیقت سے قریب رکھنے کی پرواہ نہیں کی۔ ’کراچی سے لاہور‘ اور ’لاہور سے آگے‘ اس کا ثبوت ہیں۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی کیا، جیسے ٹرین میں ٹکٹ چیکر سفاری سوٹ میں نہیں یونیفارم میں ہوتا ہے اور  اگرانہوں نے اپنے ڈیجیٹل کردار ’وائس اوور مین‘ کو استعمال کرنا ہی تھا تو وہ کوئی ساتھی مسافر بن سکتے تھے۔

اس کے علاوہ ایک روحانی شخصیت پیر صاحب جسے چوہدری نے اپنی بیٹی کے روحانی علاج کے لیے حویلی بلایا ہو وہ شادی میں ناچتا نہیں ہے، غرض ایسے متعدد واقعات ہیں جو الجھن میں ضرور ڈال سکتے ہیں۔

مزاح کی بات کریں تو زیادہ ترجملے بازی پر ہی دھیان دیا گیا اور کسی قسم کی مزاحیہ صورتِ حال پیدا کرنے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔ کئی منٹ طویل مکالمے سین کو طویل اور بوجھل بناتے ہیں۔

فلم کے مصنف بھی وجاہت ہی ہیں، ان کے مزاح کا زیادہ دارومدار ایوارڈ فنکشن میں بولنے والے جملوں پر ہوتا ہے اورانہوں نے فلم میں بھی غیرضروری طور پر انہی کو تڑکہ لگایا جیسے ’تو کوئی مہوش حیات ہے کہ تجھے بزنس کلاس کا ٹکٹ لا کر دوں۔‘

زویا کا اپنی مرحومہ والدہ کو خط لکھنا، جو ٹریلر کا بھی نکتہ آغاز تھا، اس کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی اگر وہ پڑھ کر رفاقت چوہدری نے اپنے خیالات نہیں بدلنے تھے؟ ایک شخص کو گولی لگی ہو اور وہ اس حالت میں کھڑے ہوکر بیٹی کا نکاح کروائے، اس طرح کے مناظر 80  یا 90 کی دہائی میں ہوتے تھے۔

غرض اگر اس فلم کو کوئی چیز باکس آفس پر بچا سکتی ہے تو وہ اس کے گانے ہیں۔ مہوش اور زارا کے ’چھلاوہ‘ پر ٹھمکے اور مہوش کا ’چڑیا‘ پر ہوشرُبا انداز شاید سینیما میں پیسہ وصول ثابت ہو مگر باقی 110 منٹ بے پرکےمزاق جھیلنے پڑیں گے۔

 آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ فلم اپنے گانے کے مطابق ہی وہ بلا ہے جو سمجھ نہ آئے۔

Rating: 2.5/5

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم