جب سے وزیراعظم عمران خان کی فرمائش پر ترک ڈرامے ’ارطغرل غازی‘ کو پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر اردو میں ترجمہ کرکے نشر کیا گیا، بہت سے پاکستانی برانڈز نے اس ڈرامے میں کام کرنے والے ترک اداکاروں کو اپنے اشتہارات میں کاسٹ کرنا شروع کردیا ہے۔
حال ہی میں کراچی میں ایک مقامی پرفیوم برانڈ نے دو ترک اداکاروں کو گورنر ہاؤس میں بلاکر ان کے نام کے پرفیوم کا اجرا کیا۔
اس موقعے پر مقامی فنکاروں کو بلایا گیا مگر وہاں ان کی جانب توجہ تک نہیں دی گئی۔ یہ صورت حال بہت سے پاکستانی فنکاروں کے لیے دل شکستگی کا سبب بنی ہے، کیونکہ ان کے مطابق حکومت پاکستان کی سرپرستی میں یہ سب ہو رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس ضمن میں کچھ پاکستانی فنکاروں سے بات کی اور ان کی رائے جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
اداکار علی سفینہ نے برانڈز سے شکوہ کیا کہ پاکستان میں بھی بہت سے قابل فنکار موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’کسی بھی ملک سے آنے والے فنکار کو پاکستان میں کام کرنا چاہیے جس سے سب بہت خوش ہوں گے، لیکن برانڈز سے کچھ شکایت ہے کہ پاکستان میں بہت سے قابل فنکار ہیں جو پاکستان کو اور پاکستان کے عوام کو کسی بھی باہر سے آنے والے فنکار سے بہتر جانتے ہیں۔ اس لیے انہیں سوچنا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب سے عمران خان نے اس ڈرامے کو دیکھنے کے لیے کہا ہے، یہ اس کے بعد سے ہوا ہے کہ اگر کوئی وہاں سے فنکار آیا بھی ہے تو اسے گورنر ہاؤس تک بلکہ وزیراعظم ہاؤس تک رسائی ملی ہے۔ میرا بس یہ کہنا ہے کہ یہ رسائی ہمارے مقامی فنکاروں کو بھی ملنی چاہیے۔ اگر انہیں ملاقات کرنی ہو یا وہاں پرفارم کرنا ہو۔‘
مکمل ویڈیو یہاں دیکھیے:
اداکار سلمان عرف مانی سمجھتے ہیں کہ چیزیں برابری کی بنیاد پر ہونی چاہییں۔
ان کا کہنا تھا: ’اگر ایک ڈراما ان کا لیا تھا تو ہمارے ڈرامے بھی وہاں دکھائے جاتے تاکہ ہمارے فنکار جیسے ماہرہ خان، فواد خان، حرا مانی، فہد مصطفیٰ وہاں مقبول ہوتے، مگر اس سارے عمل کا مکمل فائدہ ترکی کو ہو رہا ہے۔ ان کا مکمل کلچر اپنانے کی کوشش کرنا مناسب نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس میں شک نہیں کہ ترک اداکار پاکستان میں مقبول ہیں، مگر انہیں قومی ہیرو بنا دینا ٹھیک نہیں۔‘
مانی کے مطابق: ’حکومت کی ایما پر ہی سب ہوا ہے۔ عمران خان صاحب ایسے ڈرامے بنانا چاہتے ہیں، کیونکہ اس وقت ان کی سوچ ایسی ہی ہے، لیکن عوام کا بھی قصور ہے کیوںکہ وہ بھی جذباتی ہوجاتے ہیں۔‘
اداکارہ ہاجرہ خان کا کہنا تھا کہ ثقافتی تبادلہ ایک اچھی چیز ہے مگر یہ اس وقت بہتر ہوتا اگر ہماری اپنی حکومت کا ہمارے فنکاروں کے ساتھ بھی رویہ اچھا ہوتا۔ ’پاکستان کے ڈرامے پوری دنیا میں دیکھے جاتے ہیں، لیکن پاکستانیوں کو تو کوئی باہر نہیں بلاتا جب کہ پاکستان میں مقامی کرکٹ ٹیم کی ایمبسیڈر بھی ایک ترک اداکارہ کو بنایا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہاجرہ خان کے مطابق: ’یہ غلامی کا سا انداز ہے، پہلے بھارتی اداکاروں کے پیچھے بھاگا جاتا تھا، اب ترکی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیراعظم نے شاید کوئی ترک ڈراما دیکھا ہے اور تب سے ان پر ترک ڈراموں کا جنون سوار ہے۔ اب لوگوں نے سوچا کہ انہوں (وزیراعظم) نے کہا ہے تو اچھا ہی ہوگا۔ اب اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے اپنے ملک کی برانڈز نے اپنے ہی ملک کے فنکاروں کی جگہ ترک فنکاروں کو کام دینا شروع کردیا ہے۔ اب اس سے زیادہ غلط، غیر منطقی اور ناانصافی کیا ہوگی۔‘
سینئیر اداکار ساجد حسن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جتنی قدر ترک فنکاروں کی ہورہی ہے، کاش پاکستانی فنکاروں کی بھی ہوتی۔ بقول ساجد حسن: ’مجھے تو کوئی ایسا موقع یاد ہی نہیں جب ہمارے فنکاروں کو گورنر ہاؤس بلاکر اس طرح کی عزت دی گئی ہو۔‘
ساجد حسن کے مطابق: ’جب تک یہ دو طرفہ نہیں ہوگا یہ نہیں چل سکے گا۔ آپ جتنا مرضی انہیں سر پر چڑھا لیں مگر یہ ہیں تو دوسرے ملک کے لوگ۔ چاہے ترک ہوں، ایرانی یا افغان، ہمیں اپنے معاملات دیکھنے ہیں۔‘