48 سالہ امریکی خاتون کا دو سال تک اپنی بیٹی کی شناخت کا استعمال

لورا اوگلیزبی نے 2016 میں نے اپنی بیٹی لورین ایشلی ہیز کے نام پر سوشل سکیورٹی کارڈ کے لیے درخواست دی تھی۔ اس وقت لورین کی عمر 22 سال تھی۔

ایک وفاقی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں یکم اپریل سے 30 ستمبر کے درمیان سوشل سکیورٹی فراڈ کے دو لاکھ 70 ہزار سے زیادہ الزامات سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک لاکھ67 ہزار دوسروں کا روپ دھارنے کے کیسز تھے(تصویر: پکسابے)

ایک 48 سالہ امریکی خاتون نے اپنی ہی 22 سالہ ناراض بیٹی کے طور پر دو سال گزارنے اور ان کی چوری شدہ شناخت کا استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی میں داخلہ لینے، بطور طالب علم قرض لینے اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے بعد دھوکہ دہی کے الزامات کا اعتراف کر لیا۔

لورا اوگلیزبی نے 2016 میں نے اپنی بیٹی لورین ایشلی ہیز کے نام پر سوشل سکیورٹی کارڈ کے لیے درخواست دی تھی۔ اس وقت لورین کی عمر 22 سال تھی۔

ریاست میزوری کے شہر ماؤنٹین ویو کے رہائشیوں کا خیال تھا کہ اوگلیزبی درحقیقت 22 سال لڑکی ہیں۔ وہ سٹی لائبریری میں ملازمت کرتی تھیں اور وہ ایسے مردوں کے ساتھ ڈیٹ کرتی تھیں جو سمجھتے تھے کہ وہ اپنی اصل عمر سے 20 سال سے بھی زیادہ چھوٹی ہیں۔

مبینہ طور پر 25 ہزار ڈالر سے زیادہ کا غبن کرنے کے بعد، اوگلیزبی کو اب سوشل سیکورٹی فراڈ کے جرم میں بغیر پیرول پر پانچ سال تک قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ماؤنٹین ویو پولیس چیف جیمی پرکنز نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’ہر کسی نے ان پر یقین کیا۔ ان لوگوں میں ان کے بوائے فرینڈز بھی تھے جن کا خیال تھا کہ وہ 22 سال کی ہیں۔‘

میزوری ویسٹرن ڈسٹرکٹ کے لیے امریکی اٹارنی کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ اوگلیزبی نے سوموار کو سوشل سکیورٹی ایڈمنسٹریشن کو جان بوجھ کر غلط معلومات فراہم کرنے کے ایک جرم کا اعتراف کیا ہے۔

معافی نامے کے معاہدے کے تحت اوگلیزبی کو ساؤتھ ویسٹ بیپٹسٹ یونیورسٹی اور لورین کو 17 ہزار 521 ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ اوگلیزبی نے فیڈرل سٹوڈنٹ لون سے حاصل کیے گئے نو ہزار 400 ڈالر، پیل گرانٹس سے پانچ ہزار 920 ڈالر اور یونیورسٹی بک شاپ سے خریدی گئی کتابوں کے لیے 337 ڈالر اور فنانس چارجز کی مد میں 1,863 ڈالر حاصل کیے تھے۔

نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں کریمنل جسٹس کے پروفیسر نیکوس پاساس نے دی نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ سوشل سکیورٹی فراڈ اور کسی کی شناخت کا استعمال بہت زیادہ عام ہوسکتا ہے۔

ایک وفاقی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں یکم اپریل سے 30 ستمبر کے درمیان سوشل سکیورٹی فراڈ کے دو لاکھ 70 ہزار سے زیادہ الزامات سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک لاکھ67 ہزار دوسروں کا روپ دھارنے کے کیسز تھے۔

ان سکیمز کے تحت کچھ والدین نے بچوں کے علم میں لائے بغیر اپنے بچوں کے نام استعمال کرتے ہوئے قرض کے لیے درخواست دی ہے۔

اوگلیزبی نے جنوری 2016 میں سوشل سکیورٹی کارڈ کے لیے لورین کی شناخت استعمال کرتے ہوئے درخواست دینے کا اعتراف کیا اور ڈرائیونگ لائسنس کے لیے بھی ان کی شناخت کو استعمال کیا۔

 2017 میں انہوں نے ساؤتھ ویسٹ بیپٹسٹ یونیورسٹی میں داخلہ لینے اور یونیورسٹی کے اخراجات کے لیے مالی امداد حاصل کرنے کے لیے اسی سوشل سکیورٹی کی معلومات کا استعمال کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگست 2018 میں ماؤنٹین ویو پولیس سے آرکنساس کے حکام نے رابطہ کیا جنہوں نے کہا کہ وہ اوگلیزبی کو تلاش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اوگلیزبی نے گذشتہ سال ریاست میں لورین کی شناخت چرائی تھی۔

آرکنساس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے نے میزوری پولیس کو بتایا کہ ان کے خیال میں اوگلیزبی جعلی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کی سرحد سے تقریباً 40 میل شمال میں ماؤنٹین ویو میں رہ رہی ہیں۔

جب ماؤنٹین ویو پولیس نے اس معاملے کی چھان بین کی تو انہیں معلوم ہوا کہ اوگلیزبی سٹی لائبریری کی ملازم تھیں۔

چیف پرکنز نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’وہ دراصل یہاں ملازمت کرتی تھیں جو کہ ایک طرح سے عجیب بات تھی۔ اور اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ اصل میں وہ کون ہیں۔‘

پولیس نے انہیں ٹریفک رکنے کے دوران پکڑا۔ پہلے تو انہوں نے انکار کیا کہ وہ لورا اوگلیزبی ہیں لیکن جب پولیس نے ثبوت دکھایا تو انہوں نے اعتراف کر لیا۔

چیف پرکنز کے مطابق اوگلیزبی نے پولیس کو بتایا کہ وہ صرف اس لیے بھاگ رہی تھیں کہ وہ گھریلو تشدد کا شکار تھیں اور وہ برسوں سے اس سے بھاگ رہی تھیں۔

چیف نے کہا: ’ہم ان کی زندگی کی کہانی کو نہیں جانتے سوائے اس کے جو انہوں نے ہمیں بتائی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہاں کیا ہوا۔‘

اوگلیزبی کو آرکنساس سے بینچ وارنٹ پر گرفتار کیا گیا تھا اور ان کا کیس میزوری میں چل رہا ہے اس لیے اب دونوں ریاستوں میں وفاقی جرائم کا ادارہ اسے دیکھ رہا ہے۔

چیف پرکنز نے اخبار کو بتایا: ’انہوں نے یہ (جعلی شناخت والی) زندگی چند سال گزاری ہے اور بنیادی طور پر صرف اپنی بیٹی کا کریڈٹ برباد کر دیا تھا۔‘

ساؤتھ ویسٹ بیپٹسٹ یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے ’اس تحقیق میں مکمل تعاون کیا ہے۔‘

یونیورسٹی کے بیان کے مطابق: ’ہمیں اس صورتحال کے بارے میں جان کر دکھ ہوا۔ ہماری دعائیں اس میں شامل تمام لوگوں کے ساتھ ہیں۔‘

دی انڈپینڈنٹ نے تبصرے کے لیے اوگلیزبی کی نمائندگی کرنے والے وکلا سے رابطہ کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ