فیس بک کا چہرے کی شناخت ختم کرکے ڈیٹا حذف کرنے کا اعلان

فیس بک کو چہرے کی شناخت کا نظام متعارف کروائے 10 سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس نظام کو ترک کرنے کے عمل کو بتدریج آسان بنایا گیا کیونکہ اسے عدالتوں اور نگراں اداروں کی جانب سے جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا۔

فیس بک نے صارفین کے چہرے کی شناخت کے نظام کا ڈیٹا حذف کرنے کا اعلان کیا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے کہا ہے کہ اس کا چہرے کو شناخت کرنے والا نظام (فیس ریکگنیشن سسٹم) بند کرکے ایک ارب سے زیادہ افراد کے فیس پرنٹس ڈیلیٹ کر دیے جائیں گے۔ یہ اقدام ٹیکنالوجی اور اس کے حکومتوں، پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے غلط استعمال پر بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظرکیا جا رہا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق فیس بک کی نئی پیرنٹ کمپنی ’میٹا‘ کے لیے مصنوعی ذہانت کے شعبے کے نائب صدر جیروم پیزنٹی نے منگل کو لکھے جانے والے اپنے ایک بلاگ میں کہا: ’یہ تبدیلی ٹیکنالوجی کی تاریخ میں چہرے کی شناخت کے استعمال میں سب سے بڑی تبدیلیوں میں سے ایک ہوگی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کمپنی معاشرے میں بڑھتی ہوئی تشویش اور خاص طور پر اس حقیقت کے پیش نظر کہ ریگولیٹری اداروں نے ابھی تک کوئی واضح قواعد و ضوابط فراہم نہیں کیے، کو سامنے رکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی آنے والے ہفتوں میں ایک ارب سے زیادہ افراد کے چہرے کی انفرادی شناخت کا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دے گی۔

گذشتہ ماہ کے آخر میں فیس بک کی پیرنٹ کمپنی کے لیے ’میٹا‘ کے نئے نام اعلان کیا گیا تھا تاہم سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم کا نام تبدیل نہیں کیا گیا۔

فیس بک کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی اسے ایسی ٹیکنالوجی کی تیاری پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد کرے گی جسے وہ انٹرنیٹ کا اگلا مرحلہ سمجھتی ہے جو’میٹاورس‘ کہلائے گا۔

امریکی ڈیٹا انجینیئر اور فیس بک کے ادارے کے اندر کی خبریں دینے والی (وِسل بلوئر) فرانسس ہوگن کی طرف سے دستاویزات کے افشا کے بعد شاید فیس بک کو اب تک تعلقات عامہ کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ فیس بک کو علم ہے کہ اس کی مصنوعات لوگوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں، لیکن کمپنی نے اسے کم کرنے کے لیے بہت کم یا کوئی عملی کام نہیں کیا۔

دوسری جانب فیس بک نے ان سوالات کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا کہ لوگ کس طرح تصدیق کرسکیں گے کہ ان کا تصویری شکل میں موجود ڈیٹا ضائع کر دیا گیا ہے یا بنیادی ٹیکنالوجی میں اس کا کردار کیا ہوگا۔

روزانہ فیس ریکگنیشن استعمال کرنے والوں میں سے ایک تہائی سے زیادہ صارفین سوشل نیٹ ورک کے نظام پر اپنے چہرے کی شناخت کرواتے ہیں۔

ان صارفین کی تعداد تقریباً 64 کروڑ ہے۔ فیس بک کو چہرے کی شناخت کا نظام متعارف کروائے 10 سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس نظام کو ترک کرنے کے عمل کو بتدریج آسان بنایا گیا کیونکہ اسے عدالتوں اور نگراں اداروں کی جانب سے جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیس بک نے 2019 میں لوگوں کو تصویروں میں خود بخود شناخت کرنا بند کر دیا اور انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ تصویروں کو ٹیگ کریں جبکہ اس طریقہ کار کو بنیادی بنانے کی بجائے لوگوں سے کہا کہ وہ چاہیں تو چہرے کی شناخت کا نظام استعمال کر سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف نوٹرڈیم میں اخلاقیات برائے ٹیکنالوجی کی پروفیسر کرسٹن مارٹن کا کہنا ہے کہ فیس بک کی طرف چہرے کی شناخت کا نظام بند کرنے کا فیصلہ ’مصنوعات کے حوالے سے ایسے فیصلے کرنے کی اچھی مثال ہے جو صارف اور کمپنی کے حق میں اچھے ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے عوامی طاقت اور ریگولیٹرز کے دباؤ کا بھی اظہار ہوتا ہے کیونکہ چہرہ شناخت کرنے والے نظام کو ایک عشرے سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا پلیٹ فارم لوگوں کی شناخت کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہے۔

ایک اور مشہور ٹیکنالوجی کمپنی ایپل اسی قسم کا ایک نظام اپنے سمارٹ فونز کو اَن لاک کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

تحقیق کاروں اور پرائیویسی کے لیے سرگرم کارکنان برسوں سے ٹیکنالوجی کی صنعت سے چہرے کی پہچان کرنے والے سافٹ ویئر کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان مطالعات کی مثال دی ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نظام مختلف نسلوں، اصناف اور عمروں پر مختلف انداز میں کام کرتا ہے۔

ایک خدشہ یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی گہری رنگت والے افراد کو بعض اوقات غلط شناخت کرتی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اداروں کو بڑی تعداد میں لوگوں کے منفرد فیس پرنٹس پیدا کرنے پڑتے ہیں، جس میں اکثر اوقات ان افراد کی مرضی شامل نہیں ہوتی اور انہیں لوگوں پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

گذشتہ برس فیس بک اس وقت زیر بحث آئی جب اس نے چہرے کی شناخت کے لیے بنائے گئے نئے نظام کلیئرویو آرٹیفشل انٹیلی، جنس جو پولیس کے ساتھ کام کرتا ہے، سے مطالبہ کیا کہ وہ فیس بک اور انسٹاگرام صارفین کی تصویروں میں انہیں شناخت کرنا بند کر دے۔

چینی حکومت کے ویڈیو کے ذریعے نگرانی کے وسیع نظام کے بارے میں بڑھتی ہوئی آگاہی سے بھی تشویش میں اضافہ ہوا۔ خاص طور پر اس لیے کہ اس نظام کو اس علاقے میں استعمال کیا جا رہا ہے جو چین کی زیادہ تر مسلم نسلی اقلیتی آبادیوں میں سے ایک کا وطن ہے۔

صارفین کی طرف سے شیئر کی گئی تصاویر کے بڑے ذخیرے نے کمپیوٹر ویژن یعنی مصنوعی ذہانت کی ایک شاخ میں بہتری کے لیے پاور ہاؤس بنانے میں مدد کی۔ اب تحقیق کرنے والی ان ٹیموں نے اپنی توجہ کا محور ورچوئل ریئلٹی سے متعلق میٹا کے عزائم کو بنا لیا ہے۔

کمپنی کی سوچ ہے کہ مستقبل کے صارفین آنکھوں پر عینک لگا کر مجازی اور حقیقی دنیاؤں کے امتزاج کا تجربہ کریں گے۔ یہ ٹیکنالوجیز نئی تشویش کا سبب سن سکتی ہیں کہ لوگوں کا بائیومیٹرک ڈیٹا کس طرح اکٹھا اور ٹریک کیا جا سکتا ہے۔

چہرے کی شناخت کے حوالے سے میٹا کی نئی محتاط سوچ کا سبب ٹیکنالوجی کی بڑی امریکی کمپنیوں جیسا کہ ایمازون، مائیکروسافٹ اور آئی بی ایم کے فیصلے ہیں، جنہوں نے گذشتہ برس چہرہ شناخت کرنے والا سافٹ ویئر پولیس کو فروخت کرنے یا عارضی طور پر روکنے کا فیصلہ کیا۔

ان کمپنیوں نے چہرے کی غلط شناخت اور امریکہ میں وسیع تر پولیسنگ اور نسلی بنیاد پر ناانصافی کے ماحول کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔ کم از کم سات امریکی ریاستوں اور دو درجن شہروں میں حکومتی سطح پر اس ٹیکنالوجی کا استعمال محدود کر دیا گیا، جس کی وجہ شہری حقوق کی خلاف ورزی، نسلی تعصب اور پرئیویسی کی خلاف ورزی کا خوف ہے۔

صدر جو بائیڈن کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دفتر نے اکتوبر میں چہرے کی شناخت یا لوگوں کی جذباتی یا ذہنی حالت اور کردار کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہونے والے دیگر بائیومیٹرک آلات کے جائزے کے لیے حقائق تلاش کرنے کا کام شروع کیا۔

یورپی ریگولیٹری اداروں اور قانون سازوں نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے عوامی مقامات پر چہرے کے خد وخال کی سکیننگ کو روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے 2019 میں فیس بک پر پانچ ارب ڈالر کا جو جرمانہ عائد کیا اور پرائیویسی کے حوالے سے پابندیاں لگائیں، اس میں چہرہ سکین کرنے کے عمل کا بھی کردار ہے۔

فیس بک کے ٹریڈ کمیشن کے ساتھ جو معاملہ طے پایا اس میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ لوگوں کی تصاویر اور ویڈیوز کو چہرہ شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کے حوالے کرنے سے پہلے انہیں ’صاف اور واضح‘ اطلاع دی جائے گی۔

فیس بک نے اس سال کے اوائل میں 2015 کا ایک قانونی مقدمہ نمٹانے کے لیے 65 کروڑ ڈالر کی ادائیگی پر اتفاق کیا تھا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کمپنی نے صارف کی اجازت کے بغیر ان کی تصاویر استعمال کر کے ریاست الینائے کے پرائیویسی قانون کی خلاف ورزی کی۔

الیکٹرونک پرائیویسی انفارمیشن سینٹر کے سینیئر وکیل جان ڈیویسن کے بقول: ’یہ بڑا معاہدہ ہے۔ یہ بڑی تبدیلی ہے لیکن اسے آنے میں کہیں زیادہ تاخیر ہوگئی۔‘

ای پی آئی سی نے 2011 میں فیس بک کی چہرہ شناخت کرنے والی سروس کے خلاف فیڈرل ٹریڈ کمیشن کو اپنی پہلی شکایت کی تھی۔ تب یہ سروس شروع کیے فیس بک کو ایک سال ہوگیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی