فیس بک نے دوستی کا معیار بہتر بنایا یا تباہ کر دیا؟ 

اگر اس بات میں کوئی شک تھا کہ فیس بک، انسٹا گرام اور وٹس ایپ اب ہماری زندگیوں میں کیسی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں تو حالیہ بندش نے وہ دور کر دیا ہے۔

مینلو پارک، کیلی فورنیا میں فیس بک کے ہیڈ کوارٹرز کا راستہ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فیس بک نے دوستی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ چاہے آپ اسے بہتر تبدیلی سمجھیں یا بدتر، لیکن اپنے بہترین اور قابل اعتماد دوستوں سے ہماری تعلقات زکربرگ کے الگوردمز کے بغیر بھی نہایت خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں۔ 

فیس بک کے لیے گذشتہ چند ہفتے زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ تین اکتوبر بروز اتوار ایک سابق ملازم خاتون فرانسس ہوگن نے امریکی ٹیلی ویژن پروگرام ’60 منٹس‘ کو انٹرویو میں فیس بک پر کڑی تنقید کی کہ وہ لوگوں کے تحفظ پر منافع کو ترجیح دے رہی ہے۔ چار اکتوبر بروز سوموار فیس بک کی ملکیت وٹس ایپ، انسٹاگرام اور خود فیس بک کئی گھنٹوں تک بندش کا شکار رہے جس سے دنیا بھر میں کروڑوں صارفین متاثر ہوئے۔ پانچ اکتوبر کو ہوگن امریکی سینیٹ کے سامنے پیش ہوئیں اور سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے کم از کم قانونی عمر 13 سے بڑھا کر 17 سال کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

پہلے ہی مشکلات کی شکار فیس بک کے لیے اس وجہ سے یہ مہینہ مزید سخت ہو گیا ہے۔ ستمبر کے وسط سے وال سٹریٹ جرنل نے فیس بک کی فائلیں سامنے لانے کا آغاز کر رکھا ہے، ایسا تحقیقاتی سلسلہ جس میں اس بات کا تفصیل سے ذکر ہے کہ سوشل میڈیا کا دیو قامت ادارہ اپنے پیدا کردہ نقصان سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اسے عوام سے چھپانے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔ 

اس سلسلے کے دوران جن حقائق سے پردہ اٹھایا گیا اس میں دیگر چیزوں کے علاوہ سلیبرٹی صارفین سے فیس بک کے خصوصی سلوک کے ثبوت بھی ہیں جو انہیں اس قسم کا مواد پوسٹ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے جس کے نتیجے میں مستقل صارفین کو معطل کیا جاتا ہے، نوجوان صارفین پر انسٹاگرام کے استعمال سے ہونے والے مضر اثرات کو چھپانے کی کوششیں، نقصان دہ مواد کے پھیلاؤ کو روکنے والے فیس بک کے الگوردمز میں اصلاحات کرنے میں ناکامی، ملازمین کی جانب سے اس کے پلیٹ فارم  منشیات اور انسانی خریدوفروخت کے لیے استعمال کیے جانے کی تنبیہات پر غیر موثر ردعمل شامل ہے۔ 

فیس بک پر تنقید کوئی نئی بات نہیں۔ 2004 میں اس کے اجرا کے بعد سے اس پر وقتاً فوقتاً  کچھ سماجی برائیاں پھیلانے کے الزامات لگتے رہے۔ جعلی خبریں، پرتشدد اور فحش تصاویر کا پھیلاؤ، سیاسی تقسیم  اور شائستگی کے زوال، سینسر شپ، تجارتی مفادات کے لیے نجی اعداد و شمار کا غلط استعمال، نوجوانوں میں جسمانی ساخت سے متعلق پریشانیاں، اضطراب اور افسردگی جیسے واقعات چند ایک مثالیں ہیں۔ 

اگر یہ جزوی فہرست عملی طور پر قرین قیاس نہیں لگتی تو فیس بک کی بے مثال رسائی ذہن میں لائیے۔ فیس بک ایک کھربوں ڈالر کا کاروباری ادارہ ہے جس کے دنیا بھر میں تین ارب سے زائد صارفین ہیں۔ امریکہ میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تقریباً 70 فیصد صارفین کے فیس بک اکاؤنٹس ہیں جن میں سے اکثر روزانہ ایک بار انہیں ضرور کھولتے ہیں۔ 

اگر آپ نے کبھی اپنے دوپہر کے کھانے کی تصویر شئیر کی ہے، سیلفی میں ترمیم کی ہے، یا کسی ایسے شخص کو سالگرہ کی مبارکباد دی ہے جسے آپ نے 20 برس سے نہیں دیکھا اور اگلے 20 برسوں تک نہ دیکھیں تو بھی مسئلہ نہ ہو گا تو آپ فیس بک کے متاثرین میں شامل ہیں۔ حتیٰ کہ آپ کو فعال اکاؤنٹ تک رکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ بات چیت کے یہ طریقے جو اب عام ہیں یہ موجود نہ ہوتے اگر کمپنی کے پلیٹ فارمز سے نہ جڑے ہوتے۔ 

بات محض اس کی رسائی کی نہیں۔ اس کے پھیلاؤ کی بھی ہے۔ ایک بار جب سوشل میڈیا ایپس کمپیوٹر سے موبائل فون میں منتقل ہو جائیں تو ان کا استعمال دوسری فطرت بن جاتا ہے۔ اگر آج مریخ سے کوئی شخص اتر آئے تو سمارٹ فون اس کے لیے کسی آلے سے زیادہ جسمانی عضو ہو گا۔ ہم انہیں ہر جگہ لے جاتے ہیں اور شاید ہی کہیں انہیں بند کرتے ہوں۔ ان کی گھنٹی کی آواز مسلسل انہیں دیکھنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کے لیے رات سونے سے پہلے آخری اور صبح جاگتے ہی پہلا کام سوشل میڈیا پر اپنی لگائی پوسٹ دیکھنا ہوتا ہے۔ 

اگر اس بات میں کوئی شک تھا کہ فیس بک، انسٹاگرام اور وٹس ایپ اب ہماری زندگیوں میں کیسی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں تو حالیہ بندش نے وہ دور کر دیا ہے۔ بہت سے متاثرین کے لیے یہ تجربہ کم از کم اتنا پریشان کن تھا جیسے بجلی اور پانی کے بغیر رہنا، ایک اچانک بے کار ہونے کی حالت، ایک خوفناک احساس کہ دنیا میں سب ٹھیک نہیں ہے اور اس بات کی بڑھتی ہوئی تکلیف کہ یہ جلد معمول پر نہ آئے تو پھر کیا کریں گے۔ 

تاہم ہماری زندگیوں پر فیس بک کے گہرے اثرورسوخ کی ذیل میں ہونے والی تمام حالیہ بحث کے دوران ایک موضوع واضح طور پر نظر انداز ہوا اور وہ ہے دوستی۔ فیس بک کا بیان کردہ مشن ہے ’لوگوں کو اپنی مرضی سے ایک چھوٹا سی برادری تشکیل دینے کی آزادی اور دنیا کو ایک دوسرے کے قریب لانا۔‘ 

فیس بک کا آغاز تعلیمی اداروں میں لوگوں کے نام یاد رکھنے سے ہوا اور اس کا پورا ڈھانچہ ان رابطوں پر استوار ہے جو افراد ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ لیکن فیس بک نے فرد سے فرد کے تعلق کو کیسے متاثر کیا جسے مضبوط کرنے کے لیے اسے ڈیزائن کیا گیا تھا اور جس کی پشت پر اس کی ترقی اور تجارتی کامیابی سوار ہے؟ 

تقریباً پانچ سال پہلے جب فیس بک اپنی جوانی میں قدم رکھ رہی تھی اسے خاص طور پر اس موضوع کے حوالے سے میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ نیوز ایڈیٹرز انتہائی سنسنی خیز شہ سرخی جمانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششیں کرتے نظر آئے۔ نیوز ویک نے واویلا مچایا، ’تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ فیس بک کے دوست جعلی دوست ہیں۔‘ 

انڈیپینڈنٹ نے مزید دلفریب سرخی دی، ’تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ فیس بک کے دوست کم و بیش بالکل ہی جعلی ہیں‘ اور ذیلی سرخی لگائی ’آپ اپنے محض چار دوستوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں اور اگر آپ کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا تو باقی زیادہ تر کو پروا ہی نہیں ہو گی۔‘ ان میں ذاتی طور پر میری پسندیدہ mic.com تھی ’سائنس کے مطابق آپ کے فیس بک کے محض پانچ دوست آپ کی پروا کرتے ہیں۔‘ 

تاہم سائنس نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔ درحقیقت ان سرخیوں نے جن جائزوں کے حوالہ جات دیے انہوں نے تقریباً بالکل برعکس بات کی ہوئی تھی۔ ارتقائی ماہر بشریات رابن ڈنبر اور ان کے ساتھیوں نے لوگوں کے فیس بک پر سماجی تعلقات کا موازنہ فیس بک کے بغیر والے تعلقات سے کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آف لائن سماجی تعلقات کا جو دائرہ اور ڈھانچہ ہوتا ہے آن لائن بھی وہی چلتا ہے۔ لوگ بہترین، قریبی اور ذرا فاصلے پر رہنے والے فیس بک کے دوستوں میں فرق کرتے ہیں جیسا کہ وہ ’حقیقی زندگی میں‘ دوستوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ 

اگر روبن کے نام پر آپ چونکتے ہیں تو شاید آپ نے میلکم گلیڈویل کی کتاب ’دا ٹِپنگ پوائنٹ‘ میں ’ڈنبر کا نمبر‘ پڑھے ہوں۔ یہ نمبر 150 انسانی دوستی کے گروہوں کی بالائی حد ہے یا جسے ڈنبر ’ذاتی سماجی تعلقات کا سلسلہ‘ کہتے ہیں۔ شکار سے رزق اکٹھا کرنے والی برادری، روایتی دیہات اور جدید فوج کے یونٹوں سمیت بہت سے انسانی گروہ اسی دائرہ کے ارد گرد گھومتے رہے۔

دراصل ’ڈنبر کا نمبر‘ گمراہ کن قسم کا نام ہے۔ یہ جمع کے صیغے کے ساتھ ’ڈنبر کے نمبرز‘ ہونا چاہیے تھا۔ ڈنبر کی ’سماجی دماغی قیاس آرائی‘ (social brain hypothesis) کے مطابق انسانی سماجی تعلقات فرد کے گرد مختلف دائروں کی شکل میں بنتے ہیں، ہر دائرہ اپنے سے پہلے والے دائرے کی نسبت تین گنا بڑا ہوتا ہے: تقریباً پانچ قریبی دوستوں کا ’انتہائی محدود حلقہ،‘ 15 بہترین دوستوں پر مشتمل ایک ’ہمدردانہ گروہ،‘ 50 اچھے دوست، 150 مزید کم قریبی دوست، 500 سلام دعا والے اور 15 سو افراد جن کے نام آپ کو یاد ہوتے ہیں۔ اس ڈھانچے کے متعلق ڈنبر وضاحت کرتے ہیں کہ دماغی صلاحیتیں محدود ہونے کی وجہ سے معیار اور مقدار کے درمیان اعداد و شمار بڑھتے گھٹتے ہیں۔ 

تو پھر ’جعلی دوستوں‘ کے بارے میں یہ سب سنسی خیز شہ سرخیاں کیوں؟ اپنے مضمون میں ڈنبر اور ان کے ساتھیوں نے کہیں بھی جعلی کا لفظ استعمال نہیں کیا اور ان کے اخذ کردہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ فیس بک کی دوستی آف لائن کی طرح حقیقی ہے۔ دراصل وہی پانچ لوگ جو آن لائن آپ کی خبر گیری کرتے ہیں شاہد یہ وہی پانچ لوگ ہوں جو آف لائن بھی آپ کی پرواہ رکھتے ہوں۔ 

شہ سرخیاں جمانے والوں کی اخلاقی بے چینی شاید کئی وجوہات کی پیدا کردہ تھی۔ ان میں سے کئیوں کے اندر سے اٹھنے والا یہ داخلی احساس تھا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے عوام و بہبود بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ کیوں کہ ہم زیادہ لوگوں سے زیادہ باقاعدگی سے رابطے میں ہوتے ہیں سو ان روابط میں سے کچھ آف لائن رابطے کی طرح قابلِ اطمینان محسوس ہوتے ہیں۔ عمومی بے چینی کی ایک اور وجہ فیس بک کی لسانی جگاڑ (linguistic gerrymandering) ہے جس کی وجہ سے اس پلیٹ فارم پر موجود ہمارا ہر رابطہ دور ہونے کے باوجود کوئی شخص ہمارا ’دوست‘ بن جاتا ہے۔ 

فیس بک پر زیادہ تر ہمارے ’دوستوں‘ کی تعداد ایسی ہے جنہیں ہم ’حقیقی دوست‘ کے بجائے جان پہچان والا کہنا پسند کریں گے۔ اس بنا پر یہ کہنا کہ فیس بک کے دوست حقیقی دوست نہیں ہوتے انتہائی عجلت میں اخذ کردہ (اور گمراہ کن) نتیجہ ہے۔ 

ایک اور وجہ ’سائبر پیسیمزم‘ کی عام لہر ہے جو اس وقت زیادہ سر اٹھا رہی تھی  جب یہ جائزہ شائع ہوا۔ مشہور کتابوں اور ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے پروفیس شیری ٹرکل کی ’Alone Together‘ کی جیسی ٹیڈ ٹاکس نے سوشل میڈیا کے لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرنے اور بامعنی بات چیت کی صلاحیت کم کرنے کے رجحان کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ سان ڈیاگو کے ریاستی سماجیات شناس جین ٹوینگ کی iGen نے بعد میں نوجوان سوشل میڈیا صارفین میں تنہائی، اضطراب اور افسردگی کے بڑھتے واقعات کا ذکر شواہد کے ساتھ کیا، اور ہارورڈ بزنس ریویو کے ایک خصوصی شمارے میں سابق امریکی سرجن جنرل وویک مورتی نے آنے والی ’تنہائی کی وبا‘ کے بارے میں خبردار کیا۔ 

تو کون صیحیح ہے؟ کیا فیس بک سے ہمارا معیار دوستی کمزور پڑا ہے؟ کیا اس کے بعد بھی تقریباً صورت حال ویسی ہی ہے جیسے پہلے تھی؟ یا اس نے مزید بہتر کر دی ہے؟ 

ان باتوں کے واضح جوابات کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ دوستی ہے کیا اور پھر مزید باریک بینی سے دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ سوشل میڈیا نے دوستی کو کس طرح تبدیل کیا ہے۔ تو سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے۔ ہم اس سفر کے لیے دلکش مناظر والا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ 

ہم دوستی کے متعلق ارسطو کے خیالات سے بات شروع کریں گے، ایک ساتھ رہنے کے مختلف طریقے دریافت کریں گے، دوستی نبھانے اور محض دکھاوا کرنے کے درمیان باریکیوں پر غور کریں گے، پھر آخر میں ہم جائزہ لیں گے کہ کیا کچھ تبدیل ہوا ہے۔ 

ارسطو نے دوستی کی تین مختلف قسمیں بتائی ہیں۔ کچھ دوستیاں خوشی  پر مبنی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے کچھ لوگوں سے اس لیے دوستانہ تعلقات ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہونا بہت مزے دار ہوتا ہے یا اس وجہ سے کہ ہم ان کے ساتھ نئے ہوٹلوں پر جانے یا ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر حیران کن سٹیکرز بھیجنے جیسے کام کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ دوستیاں مفادات پر مبنی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ممکن ہے میں کسی ایسے شخص سے دوستی کر لوں جس کے روابط میرے کاروبار کے لیے مفید ہوں یا اس وجہ سے کہ ہم ایک ہی منزل پر مشترکہ گاڑی میں چلے جاتے ہیں۔ 

لیکن ارسطو کے مطابق دوستی کی اصل شکل جوہر پر مبنی ہے۔ میں ایسے دوستوں سے ان کی اصل کی بنا پر محبت کرتا ہوں، ان کے بنیادی جوہر کی وجہ سے۔ میں ان دوستوں میں ’ایک اور شخص‘ کا عکس دیکھتا ہوں یعنی ان کا کردار اور رویے میرے لیے آئینہ دار ہیں۔ ان کے برتاؤ کے جس قرینے کو میں پسند کرتا ہوں یا ان کی محبت بھری تنقید کہ مجھے یہ چیز مختلف انداز میں کرنی چاہیے تھی، سن کر میں بہتر انسان بننے کا گر سیکھتا ہوں۔ اچھے کردار والے دوست ہمیں بہتر بناتے ہیں۔

تاہم اعلیٰ دوستی کے معیار کی وجہ سے ارسطو نے دوسری قسم کی دوستیوں کو ’جعلی‘ یا ’غیر حقیقی‘ قرار نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں ایسا کرنا ’لوگوں کے احساسات پر تشدد اور انہیں متضاد باتیں کرنے پر مجبور کرنا ہے۔‘  اس کے بجائے انہوں نے تسلیم کیا کہ دوستی گہرے دیرپا روابط سے لے کر عارضی اور معمولی قسم ہے رشتوں تک پھیلا ہوا دھارا ہے۔ اس دھارے پر دوستی کا تعین اعتماد اور باہمی احساس کرتے ہیں۔

اعلیٰ دوستی میں ’دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ایک جیسی خواہش رکھتے ہیں۔‘ جیسا کہ امریکی ٹیلی ویژن سیریز ’فرینڈز‘ کی تھیم ٹیون میں ہوتا ہے، اگر میں اچھا دوست ہوں تو آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ میں آپ کے لیے ’برستی بارش میں‘ وہاں موجود ہوں گا، ’جس طرح میں پہلے وہاں ہوتا ہوں کیونکہ آپ بھی وہاں میرے لیے پہنچے ہوں گے۔‘

لیکن ارسطو اس باہمی احساس کو ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہیں۔ اعلیٰ دوستی میں فقط یہ نہیں کہ ہم اچھے اور برے وقتوں میں ایک دوسرے پر بھروسہ کر سکیں۔ بلکہ یہ ہے کہ ہم فطری طور پر اور بغیر حساب کتاب کے اتار چڑھاؤ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ یہ سب کچھ مدنظر رکھتے ہوئے ارسطو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی کے اعلیٰ دوست بہت کم ہو سکتے ہیں۔ 

ایک دوست جو چیز واقعی چاہتا ہے وہ یہ نہیں کہ اس کا دوست اس کے درد کو محسوس کرے بلکہ یہ کہ اسی درد کو محسوس کرے۔ خوشی کے لیے بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے، ایک دوست کی نشانی یہ کہ وہ فقط اس بات پر خوش ہو جائے کہ اس کا دوست خوش ہے۔ ایک مستحکم دوستی اعتماد مانگتی ہے اور اعتماد تو وقت کے ساتھ ہی آتا ہے۔ لہذا اعلیٰ دوستی ایسی چیز نہیں جس کا دائرہ وسیع ہو کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد کو آزمانا ایک کٹھن کام ہے، آپ کو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ جا کر رہنا اور وقت گزارنا پڑے گا۔

اس سے دوستی کی ایک اور جہت واضح ہوتی ہے، ساتھ رہنا۔ دوست ایک دوسرے کی صحبت تلاش کرتے ہیں۔ وہ ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

ایک ساتھ رہنے کے مختلف طریقے ہیں۔ جسمانی قربت ہے۔ باہمی توجہ اور دیکھ بھال ہے۔ مشترکہ سرگرمی ہے۔ مشترکہ عقائد، دلچسپیاں، آرا اور رویے ہیں۔

ہم ان میں سے کسی بھی طرح ایک ساتھ ہوئے بغیر دوست رہ سکتے ہیں۔ لوگ طویل جغرافیائی فاصلوں اور عرصہ دراز تک ملے بغیر دوستی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی دوستیاں کسی ایک یا دوسرے فریق کی لاپروائی کے باوجود چلتی رہتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ عقائد، دلچسپیاں اور آرا مختلف ہوں لیکن پھر بھی دوستیاں چلتی رہیں۔ لیکن ملاقات کی کم سے کم سطح کی بھی ایک حد ہے جس کے بعد دوستی برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مختلف لوگوں کی میل ملاقات کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ ایسے افراد سے دوستی نہیں کر سکتے جن سے ان کے مذہبی عقائد یا سیاسی آرا نہ ملتی ہوں۔ باقیوں کو ایسا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن جن لوگوں سے ان کی باقاعدہ ملاقات نہ ہو ان سے تعلق برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

دور دراز کے واقف کاروں اور عام جان پہنچان والے افراد سے ملنے کی توقع اور ضرورت بااعتماد ترین قریبی دوستوں سے ملنے کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ ساتھ کام کرنے والے مسافر سے ابرو کی ہلکی سی جنبش کا تبادلہ بھی مناسب ملاقات کی ضرورت پوری کر سکتا  ہے۔ لیکن ائیرپورٹ کے حال میں واپس آنے والے اپنے بہترین دوست سے ہم کچھ اور توقع رکھتے ہیں۔ 

یہ مثال دوستی کے ایک اور پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ تمام انسانی رشتوں کی طرح دوستی بھی ایک ایسی چیز ہے جسے ہم عادت (practice) کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ وہ بھی ہے جس کا ہم اظہار (perform) کرتے ہیں۔ جب میں کسی ساتھی کی طرف ابرو اٹھاتا ہوں یا اپنے بہترین دوست کو زور سے گلے لگاتا ہوں تو یہ عمل ہم دونوں تک محدود نہیں رہتا۔ میں اسے اپنے دونوں اور کوئی بھی شخص جو ہمیں دیکھ رہا ہے اس کے لیے پرفارم کر رہا ہوں۔ دراصل یہ پرفارمنس باہمی ربط کا حصہ ہے۔ میں صرف آپ تک یہ بات نہیں پہنچا رہا کہ آپ میرے لیے بہت اہم ہیں بلکہ میں سب کے سامنے اس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ 

دوستی کے کچھ افعال زیادہ عوامی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ جو نجی طور پر اور دوسرے فریق کی عدم موجودگی میں کیے جاتے ہیں ان میں بھی کسی حد تک دکھاوا شامل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر چاہے میں آپ کی جیکٹ کے پچھلے حصے سے لنٹ فقط اپنی موجودگی میں اتارتا ہوں تو میں آگاہ ہوں کہ میں صرف اس لیے یہ نہیں کر رہا کہ آپ بہترین نظر آئیں بلکہ یہ بھی جانتا ہوں کہ ایسا کام کر رہا ہوں جو خیال رکھنے اور پیار کی علامت ہے۔ 

عادت اور دکھاوے کا مرکب بیشتر ہمارے لیے مسئلہ نہیں بنتا لیکن جب دونوں کے درمیان توازن ختم ہو جائے تو ہمیں کَھلتا ہے۔ اگر کسی دوست کو متاثر کرنے کے لیے اس کے سامنے کوئی آپ کو معمول سے زیادہ گرم جوشی اور اظہار جذبات سے ملتی ہے تو آپ کو اچھا لگنے کے بجائے ایسا لگتا ہے جیسے آپ کو استعمال کیا جا رہا ہو۔ 

اوپر ہم نے دوستی کے جتنے عناصر کا ذکر کیا ان سب کو سوشل میڈیا نے متاثر کیا ہے۔ فیس بک نے دوستوں کی تعداد اور اقسام میں اضافہ کیا ہے، کچھ حوالوں سے میل ملاقات آسان بنائی ہے جبکہ کچھ لحاظ سے مشکل، جبکہ عادت اور دکھاوے کے درمیان توازن بھی تبدیل کیا ہے۔ جیسا کہ ڈنبر نے تسلیم کیا ہے فیس بک نے ہمیں اپنے سماجی تعلقات کے بیرونی حلقوں کو ڈرامائی حد تک وسیع کرنے کی آزادی دی ہے۔ پانچ سو اور 15 سو کے وہ حلقے بنانا اور برقرار رکھنا انسانی تاریخ کے پچھلے کسی بھی حصے کی نسبت زیادہ آسان ہے۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہمیں فوری طور پر ان افراد سے رابطہ قائم کرنے کے قابل بناتی ہے جو بصورت دیگر سماجی اور جسمانی طور پر ہم سے دور ہیں۔ فیس بک انہیں ہمارا دوست بتاتی ہے لیکن ہمیں اپنے حقیقی تعلقات میں ذرا بھی شبہ نہیں ہوتا۔ کنٹیکٹس وہ ہیں جن کے ساتھ ہمارے تعلقات کمزور ہیں۔ بطور ماہر معاشیات مارک گرینوویٹر نے 1973 میں نے اپنے مضمون میں رائے قائم کی تھی کہ ایسے تعلقات میں دم خم ہے۔ اگر آپ کوئی اور ملازمت تلاش کر رہے ہیں یا مقامی پلمبر کے لیے سفارش چاہتے ہیں تو اکثر و بیشتر کمزور روابط مضبوط تعلقات سے زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ آپ کے قریبی دوستوں کے سامنے وہی ذرائع ہوتے ہیں جو آپ کو معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کے دائرے سے باہر والے افراد کی رسائی مختلف ذرائع تک ہوتی ہے۔

دوسری طرف ڈنبر کے قائم کردہ سماجی دماغی مفروضے کے مطابق سماجی تعلقات کی دیکھ بھال کے لیے آپ کو وقت اور توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ فیس بک کا منافع اور ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اپنے وقت کا کتنا حصہ اس پلیٹ فارم پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کے الگوردمز آپ کی توجہ کھنچنے اور اسے باندھ رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں، ہلکی سی گھنٹی بجتے رہنا، دن رات پوسٹوں، پسند کرنے، تبصرہ کرنے وغیرہ پر لگے رہنا۔

یہ اتنا ہی تھکا دینے والا ہے جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان حالات میں آپ کے فیصلے کہ کہاں، کیسے اور کس کے ساتھ وقت گزارنا ہے دراصل آپ کے اپنے نہیں رہے۔ آپ الگورتمز اور آپ کے نیٹ ورک پر موجود دیگر افراد کی سرگرمیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس کے ممکنہ طور پر دو منطقی نتائج ہیں۔ 

پہلا یہ کہ یہاں آپ اپنے قریبی اور دور پار کے دوستوں کے درمیان اپنا وقت آف لائن کی نسبت زیادہ بے ترتیب انداز میں تقسیم کرتے ہیں۔ دوسرا آپ کے پاس آف لائن تعلقات کو دینے کے لیے وقت اور توانائی کم رہ جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں فیس بک کے پلیٹ فارم تعلقات کے کچھ طریقوں کو فروغ دیتے ہیں اور کچھ دیگر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ یہ تعصبات کئی صورتوں میں ابھر کر سامنے آتے ہیں اور پلیٹ فارم کے حوالے سے بدلتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر فیس بک کا عوامی ’ڈسپلے ونڈو‘ فارمیٹ آپ کے سماجی دائرے میں ان لوگوں کی آپ کے ساتھ شمولیت مشکل بنا دیتا ہے جن کی سیاسی رائے آپ کی رائے سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ آپ کی وابستگی آپ کی پوسٹ پر دوسروں کو نظر آتی ہے اور شرمندگی کا ایک ممکنہ ذریعہ بنتا ہے۔   

دوسری طرف وٹس ایپ میں آپ خود ایک دن کے دوران مختلف گروپوں کے درمیان مسلسل اچھلتے ہوئے اور شناخت اور زبان کے قرینے کو موثر طریقے سے تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مجھے  یقین ہے کہ میں اکیلا نہیں جس کے پاس ایسے سٹیکرز موجود ہوں جن کا مقصد کوئی مخصوص گروپ ہو لیکن انہیں کسی دوسرے گروپ میں بھیجنا بھی کم مناسب نہ لگے۔ یہ اس چیز کی مثالیں ہیں جنہیں ماہر معاشیات نے ’سیاق و سباق کا خاتمہ‘ کہا تھا۔ جہاں وہ سماجی حلقے جنہیں ہم الگ رکھنا چاہتے ہیں اچانک اس طرح اکٹھے ہوتے ہیں کہ پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں۔ جیسے ہم گروپ سے گروپ اور ایپ سے ایپ میں انگھوٹا چلاتے جاتے ہیں ہماری سوشل زندگیاں برطانوی خلوت گاہ کے مزاحیہ کرتب کی طرح محسوس ہونے لگتی ہیں، دروازوں کو کھولنے اور بند کرنے کا سلسلہ، قریب سے ہو کر گزر جانا اور چیزوں کو خجالت آمیز انداز میں اکٹھا کر لینا۔

میرا خیال ہے دوستی پر فیس بک کا سب سے گہرا اثر اس کا عادت اور دکھاوے کا توازن بگاڑنا ہے۔ فیس بک نے کشش ثقل کے مرکز کو قطعی طور پہ دکھاوے کی طرف منتقل کر دیا ہے۔ فیس بک پہ ہوتے ہوئے ہم سب ڈس پلے پر ہیں۔ دوسرے کے ساتھ ہمارے ربط کا بحثیت مجموعی ہمارے نیٹ ورک پر جو اثر پڑتا ہے ہم اس سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ دوستی ذاتی کم عوامی زیادہ بنتی جا رہی ہے۔ نتیجتاً ارسطو کی پیش کردہ اعلیٰ دوستی برقرار رکھنے کی ہماری صلاحیتوں پر غیر محسوس طریقے سے گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ دکھاوے پر ہماری توجہ ہماری بہت سی آن لائن دوستیوں کو خوشی اور افادیت کے کاروبار میں بدل دیتی ہے۔ ہم سب کے پاس ایک ذاتی برینڈ ہے اور ہمارے باہمی لائیکس، کمنٹس اور نام منشن کرنا بہلانے پھسلانے اور لین دین کی پیچیدہ معیشت کا حصہ ہیں جہاں دوسرا شخص نہایت آسانی سے دوست کے بجائے ایک زیب و آرائش کا اضافی پرزہ بن سکتا ہے۔ اصل خوبی کے بجائے ہماری دوستیوں کی بنیاد اصل خوبی کی ظاہری علامت بنتی ہے۔

گذشتہ چند ہفتوں کے فیس بک سکینڈلز کے درمیان ایک ستم ظریفانہ اور غیر ارادی طور پر مزاحیہ وقفہ مارک زکربرگ کی اپنے ذاتی فیس بک اکاؤنٹ سے نیویارک ٹائمز کی اس بات کی تردید تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چار جولائی کو پوسٹ کیے گئے ایک کلپ جس میں وہ سرفنگ کر رہے تھے اس کا تختہ الیکٹرک تھا، نہ کہ ان کے دعوے کے برعکس ’ایک ہائیڈرل فول جسے میں خود اپنی ٹانگوں سے پمپ کر رہا ہوں۔‘ 

جس کمپنی کی زکربرگ نے بنیاد رکھی تھی اس پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے اپنی ساکھ کو چمکانے اور داغوں کو دھونے کے لیے غلط حربے استعمال کیے لیکن اس کی بینادی تشویش ان الزامات کو مسترد کرنا تھا جن کے مطابق اس نے خود کو زیادہ متاثر کن دکھانے کے لیے ایسے ہی حربے استعمال کیے ہیں۔ 
لیکن ستم ظریفی کی ایک اور پرت بھی ہے۔ زکربرگ بطور شخص اور فیس بک بطور کاروباری ادارہ جن الزامات کی زد پر ہیں وہ کئی لحاظ سے اس طرزِ عمل کی زیادہ خوفناک اور بھیانک شکلیں ہیں جو ہم میں سے اکثر فیس بک پر اپناتے ہیں: عادت پر دکھاوے کو ترجیح دینا اور تعلقات مضبوط بنانے اور ایک برادری تشکیل دینے کے بہانے خود پسندی کا مظاہرہ کرنا۔ 

سو جی ہاں فیس بک نے دوستی کو تبدیل کر دیا ہے۔ جس میں کچھ چیزیں اچھی اور کچھ باعث تشویش۔ یہ کمزور تعلقات کے لیے بہت شاندار رہی ہے اور مضبوط تعلقات کے لیے باعث پریشانی۔ تاہم خوش قسمتی سے اپنے بہترین اور قریب ترین بااعتماد دوست جن سے ہماری سب سے زیادہ مضبوط وابستگیاں تھیں ان سے فیس بک کے سہارے کے بغیر بھی یہ برقرار ہیں۔ اب ہم فیس بک پر قریبی لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں تو بالعموم وہ براہ راست ملاقات کا ضمیمہ، دیباچہ یا عارضی متبادل سہولت ہوتی ہے۔ اس لیے ہمارا سب سے بڑا چیلنج اس طرح کی دوستی کو ان عادات سے بچانا ہے جو ہم آن لائن دوسروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اپناتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین