سندھ:’جعلی شناختی کارڈز سے متعلق اعداد وشمارایف آئی اے سے لیے ‘

’میں نے اجلاس میں کسی کالعدم تنظیم کا نام نہیں لیا تھا۔ مگر یہ بات میرے نام کے ساتھ زبردستی منسوب کی گئی کہ این ڈی ایس، دشمن ایجنسی اور کالعدم تنظیموں کو جعلی کارڈز کا اجرا ہوا، جو درست بات نہیں تھی، میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔‘  

’وفاقی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ شناختی کارڈ جو پہلے بلاک کردیے گئے تھے وہ ان بلاک ہوئے ہیں۔‘(فائل تصویر: اے ایف پی)

جولائی 2021  میں سینیٹ کے اجلاس میں توجہ دلاؤ نوٹس میں نادرا کی جانب سے سندھ میں 30 سے 40 لاکھ غیر ملکیوں کو جعلی شناختی کارڈز کے اجرا کا معاملہ اٹھانے والے ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما اور سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ انھوں نے یہ اعداد و شمار ایف آئی اے سے لیے تھے۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا ’میں نے جعلی شناختی کارڈز اجرا کے یہ اعداد و شمار پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر عامر فاروقی سے حاصل کیے تھے۔‘

’میں نے اجلاس میں کسی کالعدم تنظیم کا نام نہیں لیا تھا۔ مگر یہ بات میرے نام کے ساتھ زبردستی منسوب کی گئی کہ این ڈی ایس، دشمن ایجنسی اور کالعدم تنظیموں کو جعلی کارڈز کا اجرا ہوا، جو درست بات نہیں تھی، میں ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔‘  

واضح رہے کہ سینیٹ اجلاس میں شریک حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے سینیٹ اجلاس میں فیصل سبزواری کے توجہ دلاؤ نوٹس پر اپنے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں 40 لاکھ جعلی شناختی کارڈز کا اجرا تو دور کی بات سرکاری ریکارڈ کے مطابق 2018 سے اب تک کراچی میں صرف پانچ  لاکھ اور صوبے بھر میں  کل 29 لاکھ 63 ہزار کے قریب شناختی کارڈز جاری ہوئے تو ان میں سے کیسے 40 لاکھ کارڈز جعلی ہوسکتے ہیں؟  

فیصل سبزواری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’میں نے اعداد ایف آئی کے افسر سے لیے، ایف آئی اے اور نادرا دونوں ہی وفاقی حکومت کے ادارے ہیں، تو وفاقی حکومت بتائے کہ اگر 40 لاکھ کارڈ جعلی جاری نہیں ہوئے تو کتنے جاری ہوئے؟‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے اٹھائے ہوئے توجہ دلاؤ نوٹس پر تاحال کیا کارروائی ہوئی ہے تو فیصل سبزواری نے کہا کہ یہ معاملہ قائمہ کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا، جس پر تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔  

کچھ عرصہ قبل سندھ میں غلط تقرریوں اور جعلی کارڈز کے اجرا پر نادرا کے 39 ملازمین کو معطل کرنے کے ساتھ 10 افسران کے خلاف کیسوں کا اندراج کیا گیا اور کئی افسران کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصل سبزواری نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ نادرا کے کچھ ملازمین کے خلاف کی گئی، اس کارروائی کی تفصیلات ہمیں بتائی جائیں۔

’وفاقی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ شناختی کارڈ جو پہلے بلاک کردیے گئے تھے وہ ان بلاک ہوئے ہیں۔ ویسے تو وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ نادرا کا نظام انتہائی فول پروف ہے تو پھر بلاک کیے ہوئے کارڈز ان بلاک کیسے ہوئے؟ اس کے علاوہ جن عوامی نمائندوں نے ان کارڈز کی تصدیق کی ہے ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، یہ بھی عوام کو بتایا جائے۔‘ 

فیصل سبزواری کے مطابق 1980 سے پہلے یہاں موجود بنگالیوں کو تو شناختی کارڈز کا اجرا نہیں کیا جارہا، جب کہ وہ کئی برس سے یہاں قیام پذیر ہیں۔ ایسے میں 1980 کے بعد نئے آنے والے لوگوں کو کیسے کارڈز جاری کیے گئے؟

’قانون کے مطابق جس فرد کا شناختی کارڈ بنتا ہے تو ان کا نام از خود ووٹر لسٹ میں شامل ہوجاتا ہے، ایسے میں ووٹر لسٹ کی جانچ کیوں نہیں کرائی جاتی؟‘

دوسری جانب رابطہ کرنے پر ترجمان نادرا فائق علی چاچڑ  نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔  

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان