’ہمیں بغیر شناختی کارڈ کے ویکسینیشن کی اجازت نہیں‘

محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ کی چار کروڑ 80 لاکھ کی آبادی میں سے اب تک 70 لاکھ سے زائد افراد کی ویکسینیشن کی جا چکی ہے۔

 گذشتہ چند ہفتوں میں کراچی میں ڈیلٹا ویریئنٹ کے کیسز کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے جس کے بعد حکومت سندھ نے آٹھ اگست تک سندھ بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا  ہے(انڈپینڈنٹ اردو)

حکومت سندھ کی جانب سے بغیر شناختی کارڈ افراد کی ویکسینیشن کا عمل شروع کرنے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد محکمہ صحت سندھ کا کہنا ہے کہ یہ عمل چند روز میں شروع ہو گا۔

 تاحال اس حوالے سے کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا لیکن کراچی کی اقلیتی برادریوں نے اسے خوش ائند قرار دیا تاہم وہ ویکسی نیشن کے عمل میں سہولیات کی عدم فراہمی پر حکومت سندھ سے نالاں ہیں۔

اس فیصلے کے تحت بغیر قومی شناختی کارڈ کے افراد اپنی کوئی بھی تصدیق شدہ شناختی دستاویز دکھا کر ویکسین لگوا سکیں گے۔

 کراچی کے ایکسپو سینٹر سے اس کا آغاز کیا جائے گا جو کہ شہر کا سب سے بڑا اور 24 گھنٹے فعال رہنے والا ویکسی نیشن سینٹر ہے۔

اس حوالے سے ایکسپوسینٹر ویکسی نیشن کی ترجمان ڈاکٹر سمرین نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’ابھی ہمیں بغیر شناختی کارڈ کے ویکسین لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں اس حوالے سے کوئی ہدایات نہیں ملیں اور نہ ہی کوئی سرکاری نوٹیفیکیشن موصول ہوا ہے۔ ایک میٹنگ میں ہمیں صرف یہ زبانی طور پر بتایا گیا تھا کہ بغیر شناختی کارڈ کے ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز کیا جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ اس کے بغیر لوگوں کو ٹریس کرنا ممکن نہیں۔ ہمارے کال سینٹرز کی جانب سے شناختی کارڈ پر رجسٹرڈ نمبر پر کال کرکے ویکسین کی دوسری ڈوز لگوانے کی اطلاع دی جاتی ہے۔‘

حکومت سندھ کے اس فیصلے کے عمل میں آنے کے بعد کہ قومی شناختی کارڈ کے علاوہ دیگر کون سی دستاویزات کے ذریعے سندھ میں ویکسین لگوائی جاسکتی ہے، اس حوالے سے ترجمان محکمہ صحت سندھ عاطف وگھیو کا کہنا تھا کہ ’آئی ڈٰی کارڈ کے علاوہ بے فارم، برتھ سرٹیفکیٹ، ریزیڈینٹ سرٹٰیفکیٹ، پاس پورٹ، تعلیمی اسناد یعنی پرائمری سکول یا میٹرک، انٹر کا سرٹیفکیٹ یا کوئی بھی اور دستاویز جس سے یہ ظاہر ہو کے ویکسین لگوانے والے کی عمر 18 سال سے زائد ہے۔‘

عاطف وگھیو کے مطابق کسی اور شخص کے شناختی کارڈ پر بھی ویکسین لگوانا ممکن ہوگا۔

اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’ایسے گھرانے جہاں کم از کم کسی بھی ایک شخص کے پاس شناختی کارڈ موجود ہو وہ اپنے کارڈ پر گھر کے دیگر بالغ افرد کو ویکسین لگوا سکتے ہیں‘

تاہم انہوں نے مزید واضح کیا کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب تمام لوگ گھر کے ایک ہی فرد کے آئی کارڈ پرانحصار کریں۔ کوشش کریں کہ ویکسینیشن سینٹر پر اپنی شناخت کے لئے کوئی دستاویزی ثبوت ضرور ساتھ لائیں۔‘

ان کے مطابق ’اس کے علاوہ وہ افراد جن کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے، وہ اپنے کارڈ پر گھر کے ملازمین یعنی ڈرائیور، خانساماں و دیگر ملازمین جن کے شناختی کارڈ موجود نہیں ہیں، ان کو بھی ویکسین لگوا سکتے ہیں تاہم ان کا ویکسینیشن سینٹر پر ساتھ ہونا لازم ہے۔‘

کیا کراچی کی اقلیتوں کو ویکسین میسر ہے؟

اس حوالے سے ہم نے کراچی کی کچھ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات کی جن کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود نہیں ہے۔

 انہوں نے ہمیں بتایا کہ حکومت سندھ کی جانب سے انہیں ویکسین لگوانے کے لئے کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں ہیں۔

کراچی میں چارلاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان ہیں جن میں سے ذیادہ تر لانڈٰھی، کورنگی، کیماڑی، اورنگی ٹاؤن اور ملیر میں مقیم ہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کی برادری سے تعلق رکھنے والے نور حسین آرکانی نے بتایا کہ شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث ان کے گھروالوں اور ان کی برادری کے کئی افراد کی ویکسینیشن اب تک نہیں ہو پائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شناختی کارڈ کے بغیر ہم نہ ہی 1166 پر میسیج کرکے خود کو رجسٹر کرواسکتے ہیں اور نہ ہی کسی ویکسینیشن سینٹر پر جا کے ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ جن روہنگیا مسلمانوں کے پاس شناختی کارڈ ہے وہ ویکسین لگوا رہے ہیں لیکن باقی لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ کب حکومت ہمارے طرف توجہ دے گی۔ روہنگیا مسلمانوں کو کراچی میں شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث کئی مشکلات پیش آتی ہیں جن میں اب ویکسینیشن بھی ایک ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسے روہنگیا مسلمان جن کے والدین پاکستان میں عرصہ دراز سے مقیم ہیں، ان کے بیوی بچے ہیں، گھربار ہے، برتھ سرٹٰفیکیٹ ہے، گھر کے کاغذات، بجلی گیس کے بل ہیں اور تمام ثبوت ہیں کہ وہ پاکستان کے اور کراچی کے رہائشی ہیں تو کم از کم انہیں ویکسین لگا دیں۔ ابھی تو انہیں بھی نہیں لگائی جا رہی۔ لمبی لمبی لائنوں میں لگنے کا کیا فائدہ جب شناختی کارڈ کے بغیر ویکسین نہیں ملتی؟ لانڈٰھی کورنگی میں ایسا کوئی ویکسینیشن سینٹر ہے تو ہمیں بتائیں ہم آج ہی ویکسین لگوا لیں۔‘

کراچی کے اورنگی ٹاؤن کی رہائشی اور بنگالی برادری سے تعلق رکھنے والی رابعہ گھر گھر کام کرتی ہیں اور ان کے شوہر بن کباب کا ٹھیلہ لگاتے ہیں۔

 رابعہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سنا ہے کہ ویکسین خطرناک ہے اسی لیے ہم نے ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی۔ ہمارے پاس ویسے بھی شناختی کارڈ نہیں ہے تو ہماری سم بھی بند نہیں ہوگی۔ ہم سے کوئی نہیں پوچھتا کہ ویکسین لگوائی یا نہیں، کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ ہم کہیں پر ویکسین لگوانے جائیں گے تو ہمیں واپس لوٹا دیا جائے گا کیوں کہ ہمارے پاس شناختی کارڈ نہیں۔‘

رابعہ چوں کہ گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہیں تو ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر سندھ حکومت یہ ممکن کر دے کہ جن لوگوں کے گھروں میں وہ کام کرتی ہیں، ان کے شناختی کارڈ پر انہیں ویکسین لگ جائے تو کیا وہ ویکسین لگوا لیں گی؟

اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسا ہوا میں اپنے شوہر کو بھی ساتھ لے جاؤں کی ویکسین کے لئے۔‘

ویکیپیڈیا کے مطابق کراچی میں اس وقت 16 لاکھ سے زائد بنگالی موجود ہیں۔

اس کے علاوہ کراچی کی اقلیتی برادیوں میں افغانی بھی موجود ہیں۔ کراچی کے ناردن بائی پاس کے قریب گڈاپ ٹاؤن میں مقیم مولانا رحیم اللہ نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے لیکن ان کے علاقے میں افغان پناہ گزینوں کے لئے کوئی ویکسینیشن سینٹر نہیں ہے۔

گڈاپ ٹاؤن کراچی شہر کے مرکزی علاقوں سے تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

مولانا رحیم اللہ کا کہنا تھا کہ ’میری رہائش گڈاپ ٹاؤن کی ہے۔ میرے پاس شناختی کارڈ موجود ہے مگر میں نے اور میرے گھر والوں نے ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی کیوں کہ ہمارے علاقے میں کوئی ویکسینیشن سینٹر موجود ہی نہیں ہے۔ میں خود دو مرتبہ شہر میں جا کر ویکسین لگوانے کی کوشش کرچکا ہوں مگر اس قدر رش ہے کہ فارم بھروانے اور چار سے پانچ گھنٹے انتظار کرنے کے باوجود بھی ویکسین نہیں ملی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آپ سوچیں کے جب میرا یہ حال ہے تو جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے ان افغان پناہ گزینوں کا کیا حال ہوگا۔ انہیں ویکسین نہیں مل رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ ہمارے علاقے میں بھی ویکسینیشن سینٹر کھولیں۔‘

سندھ میں اب تک کتنی ویکسین لگائی جا چکی ہے؟

 گذشتہ چند ہفتوں میں کراچی میں کرونا ڈیلٹا ویریئنٹ کے کیسز کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا ہے تاہم حکومت سندھ نے آٹھ اگست تک سندھ بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا ہے۔

 ویکسینیشن کے عمل میں تیزی لانے کے لیے نئی پابندیاں بھی عائد کہ گئی ہیں جن کے مطابق 31 اگست کے بعد ویکسین نہ لگوانے والے افراد کی تنخواہ روک لی جائے گی اور سم بند ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم کراچی کے عوام اب بڑی تعداد میں ویکسینیشن سینٹرز کا رخ کر رہے ہیں۔ صبح سے رات ویکسینیشن سینٹرز کے باہر لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں۔

محکمہ صحت سندھ کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سندھ کی چار کروڑ 80 لاکھ کی آبادی میں سے اب تک 70 لاکھ سے زائد افراد کی ویکسینیشن کی جا چکی ہے۔ جس کے مطابق اب تک سندھ کی صرف 20.31 فیصد آبادی کی ویکسینیشن ہوئی ہے۔

کراچی کی ایک کروڑ 50 لاکھ سے زائد آبادی میں اب تک صرف 37 لاکھ سے زائد افراد کی ویکسینیشن کا عمل مکمل ہوا ہے۔

 کراچی کے چھ اضلاع میں سب سے ذیادہ ویکسین ضلع شرقی میں لگائی گئی ہے جس کی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے۔ جبکہ ویکسینیشن کا سب سے کم تناسب کراچی کے ضلع کیماڑی کا ہے جہاں صرف دو لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگی ہے۔

کراچی کے ضلع وسطی میں چار لاکھ، کورنگی میں تین لاکھ، ملیر میں دو لاکھ اور ضلع شرقی میں نو لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگ چکی ہے۔

اس کے علاوہ سندھ کے دیگر ڈویژنز یعنی حیدرآباد میں 12 لاکھ 23 ہزار، سکھر میں چارلاکھ 15 ہزار، میرپورخاص میں پانچ لاکھ 84 ہزار، شہید بے نظیر آباد ڈویژن میں پانچ لاکھ 91 ہزار اور لاڑکانہ میں چار لاکھ 64 ہزار افراد کی ویکسینیشن کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔

محکمہ صحت سندھ کے مطابق سندھ میں اس وقت سات مختلف ویکسینز لگائی جارہی ہیں جن میں سائنوویک کی 39 لاکھ 48 ہزار، سائنوفارم کی 18 لاکھ 75 ہزار، ایسٹرا زینیکا کی تین لاکھ تین ہزار، فائزر کی سات ہزار، کین سائنو کی تین لاکھ 38 ہزار، پاک ویک کی دو لاکھ 12 ہزار اور موڈرنا کی ایک لاکھ 36 ہزار خوراکیں لگائی جا چکی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت