سندھ حکومت اور پاکستان میڈیکل کمیشن داخلہ پالیسی پر آمنے سامنے

سندھ حکومت نے انٹری ٹیسٹ میں 50 فیصد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلہ دینے کی ہدایت جاری کر رکھی ہے، جو کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے مقرر کردہ میرٹ یعنی 65 فیصد سے کم ہے اور جس پر پی ایم سی نے اعتراض اٹھایا ہے۔

صوبائی کابینہ نے دو دسمبر کو فیصلہ کیا تھا کہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں 50 فیصد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا (تصاویر:شہزاد علی خان)

پاکستان میں طبی تعلیم کا نظام چلانے والے وفاقی ادارے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) اور سندھ حکومت کے درمیان میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لیے مقررہ نمبروں کے تنازعے میں صوبے کے ہزاروں طلبہ غیر یقینی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔  

سندھ حکومت نے انٹری ٹیسٹ میں 50 فیصد مارکس حاصل کرنے والے طلبہ کو میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلہ دینے کی ہدایت جاری کر رکھی ہے، جو کہ پی ایم سی کے مقرر کردہ میرٹ یعنی 65 فیصد سے کم ہے اور جس پر پی ایم سی نے اعتراض اٹھایا ہے۔

صوبائی کابینہ نے دو دسمبر کو فیصلہ کیا تھا کہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں 50 فیصد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا، جس کے بعد سات دسمبر کو صوبائی حکومت نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے شہید بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ کو ہدایت جاری کی کہ وہ صوبے کے تمام سرکاری اور نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کے عمل کا آغاز کرے۔

تاہم اس کے جواب میں شہید بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کو لکھے گئے ایک خط میں پی ایم سی نے واضح کیا ہے کہ خلاف ضابطہ داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ کی رجسٹریشن نہیں کی جائے گی۔ 

پی ایم سی نے سندھ حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی جمع کروا دی ہے۔

پی ایم سی نے 50 فیصد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو داخلہ دینے کے سندھ کابینہ کے فیصلے کو پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ سے متصادم اور سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے داخلہ دینے والے تمام نجی و سرکاری میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کا مراسلہ جاری کر دیا ہے۔

دوسری جانب سندھ حکومت نے پی ایم سی کی طرف سے کسی بھی اقدام کو سندھ میں قانونی سطح پر روکنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ 

نجی میڈیکل یونیورسٹیز اور کالجوں کے سربراہان کے ساتھ منگل کو ایک ملاقات میں وزیر صحت سندھ عذرا پیچوہو نے کہا کہ ’ہماری خواہش ہے کہ نجی کالج کی کوئی سیٹ خالی نہیں رہے اور سندھ کے ڈومیسائل پر داخلے کو ترجیح دی جائے۔‘

انہوں نے صوبے میں ہی پی ایم سی کی طرز پر سندھ میڈیکل کونسل بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اس سے قبل نومبر میں وزیر صحت سندھ عذرا پیچوہو نے پی ایم سی کوایک خط بھی لکھا تھا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ گذشتہ برس 2020 میں انٹری ٹیسٹ کے پاسنگ مارکس 60 فیصد مقرر کیے گئے تھے، جس کے بعد سندھ کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں 492 نشستوں پر داخلے نہیں ہوسکے تھے۔

خط کے مطابق رواں برس انٹری ٹیسٹ میں پاسنگ مارکس کو 60 فیصد سے بڑھا کر 65 فیصد کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے صوبے میں مزید سیٹیں خالی رہنے کا خدشہ ہے۔

اس خط کے جواب میں پی ایم نے یکم دسمبر کو وزیر صحت کو تحریری جواب میں کہا کہ انٹری ٹیسٹ نیشل اکیڈمک بورڈ کے مطابق لیے گئے،  جن میں 68 ہزار سے زائد طلبہ نے 65 فیصد مارکس لے کر ٹیسٹ پاس کیے، جن میں سے 7811 طلبہ سندھ سے ہیں۔

پی ایم سی نے لکھا کہ سندھ میں سرکاری میڈیکل یونیورسٹیوں سے ملحقہ کالجوں میں ایم بی بی ایس کی صرف 2400 جبکہ بی ڈی ایس کی صرف 500 سیٹیں ہیں جو کہ مجموعی طور پر 2900 نشستیں بنتی ہیں۔ اسی طرح نجی کالجوں میں ایم بی بی ایس کی 1850 اور بی ڈی ایس کی 740 نشستیں ہیں جو کہ مجموعی طور پر 2590 بنتی ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ اگر سندھ سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کی تمام 2900 سیٹیں بھر لیتا ہے تو بھی صوبے سے پاس ہونے والے 4911 طلبہ رہ جائیں گے، جو بچے ہوئے نجی کالجوں میں 2590 سیٹوں پر مدمقابل ہوں گے۔ ادارے کے مطابق جب اس صورت حال میں میرٹ کے 65 فیصد مارکس پر پاس ہونے والے تقریباً دو طلبہ ایک سیٹ کے لیے مدمقبل ہوں گے تو میرٹ کو مزید کم کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

ادارے نے کہا کہ ’پورے ملک کا یکساں میرٹ ہونا چاہیے۔ صحت کے شعبے میں قابلیت کا معیار بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور سندھ حکومت ایسے اقدامات نہ اٹھائے جس سے قابلیت کے معیار پر سمجھوتا ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم اس کے بعد سندھ حکومت نے داخلے کے لیے 50 فیصد مارکس مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا اور شہید بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کو داخلے شروع کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

اس کے بعد پی ایم سی نے سپریم کورٹ میں پٹیشن جمع کروائی اور سندھ حکومت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ سندھ سے ایڈمیٹنگ یونیورسٹی شہید بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کو بھی فریق بنایا۔

یونیورسٹی کے رجسٹرار کا ایک خط بھی ارسال کیا گیا جس میں کہا گیا کہ صوبائی کابینہ کا فیصلہ پی ایم سی کے سینیٹ اور وفاقی پارلیمان سے منظور شدہ ایکٹ 2020 سے متصادم ہے جبکہ ماضی میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے۔

اس میں خبردار کیا گیا کہ اگر قانون سے متصادم انٹری ٹیسٹ میں 65 فیصد تناسب سے کم پر طلبہ کو داخلے دیے گئے تو پی ایم سی ان کی رجسٹریشن نہیں کرے گی، انہیں ملک میں کہیں بھی پریکٹس کرنے کا لائسنس نہیں دے گی اور نہ ہی ان کو پی ایم سی کی ڈگری دی جائے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ ان طلبہ کو دی گئی کسی ڈگری کو ملکی و غیر ملکی سطح پر نہیں مانا جائے گا اور داخلہ دینے والے تمام نجی و سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے خلاف نہ صرف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی بلکہ ان کی ایکریڈیشن کو منسوخ کردیا جائے گا۔

پی ایم سی کے سخت اقدامات پر ڈائریکٹر ایڈمیشنز شہید بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ریاض شیخ نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ داخلہ ٹیسٹ پاسنگ پرسنٹیج کا معاملہ سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان ہے، اس کا دفاع سندھ حکومت کرے گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ یونیورسٹی کے چانسلر ہیں، سندھ کے جامعات کا ایکٹ سندھ اسمبلی سے منظور ہوتا ہے اور ان کے ادارے میں سندھ حکومت کی ہدایات کے مطابق داخلوں کا عمل جاری ہے اور میرٹ لسٹ وقت پر لگائی جائے گی۔

 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’داخلے کے عمل کو روکنے پر نہ تو کوئی عدالت کے احکامات ہیں اور نہ ہی ایسی کوئی سرکاری ہدایات ملی ہیں۔ عدالتوں کا مکمل احترام کرتے ہیں اور جو فیصلہ آیا قبول کریں گے۔‘

اس معاملے پر یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر انیلا عطاالرحمٰن نے بات کرنے سے گریز کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے ذرائع کے مطابق سندھ حکومت صوبے کے نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کو سبسڈی فراہم کر رہی ہے جبکہ سندھ حکومت پی ایم سی کو بھی واضح کہہ چکی ہے کہ سندھ کی جامعات میں داخلے سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والے طلبہ کو دیے جائیں۔

سندھ حکومت چاہتی ہے کہ سندھ کے کالجوں میں داخلہ حاصل کرنے والے تمام طلبہ کا تعلق صرف سندھ سے ہو اور یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت انٹری ٹیسٹ میں پاسنگ مارکس کا تناسب 65 فیصد سے کم کرکے 50 فیصد کرنے کا فیصلہ بھی صوبائی کابینہ سے منظور کروا چکی ہے تاکہ سندھ کے طلبہ سب سے زیادہ مستفید ہوں۔

لیکن اب یہ معاملہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تنازعے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان صرف سندھ کے طلبہ کو ہے، جن کے داخلوں کے سلسلے میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان