پاکستان بھر کے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے خواہش مند طلبا اور طالبات ان دنوں پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
ان طالب علموں نے بتایا کہ وہ پی ایم سی کی جانب سے حالیہ دنوں ملک کے سرکاری میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے امتحانات کے دوران کورس سے باہر سوالات دینے، پیپر لیک ہونے، مختلف صوبوں میں میڈیکل یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے ڈومیسائل کی شرط ختم کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی طلبا اور طالبات احتجاج کر رہے ہیں۔کراچی کی طالبہ مائدہ گل نے دعویٰ کیا کہ پی ایم سی نے داخلہ امتحانات میں 28 معروضی سوالات کورس سے باہر سے دیے، پیپرز لیک ہوئے اور کچھ امتحانی مراکز میں نقل ہوئی جبکہ کہیں کہیں پیپر آدھا گھنٹے بعد شروع ہوا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے مائدہ گل نے بتایا: ’پی ایم سی کے قیام سے پہلے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) ہر صوبے میں اپنے حساب سے امتحانات لیتی تھی مگر اب پی ایم سی مرکزی سطح پر نہ صرف داخلہ امتحانات لے رہا ہے، ساتھ میں داخلہ بھی اسی حساب سے دیا جائے گا، جس سے طلبہ کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔‘
مائدہ کے مطابق مرکزی سطح پر امتحان لینے کے بعد کون سے طالب علم کا داخلہ کس کالج یا یونیورسٹی میں ہوگا، یہ فیصلہ پی ایم سی کرے گی۔ ’اب میرا تعلق کراچی سے ہے، اگر مرکزی میرٹ لسٹ کے حساب سے میرا داخلہ خیبرپختونخوا کے کسی کالج میں ہوجائے تو میرے والدین تو اجازت دے دیں گے، مگر ہر ایک کے لیے یہ ممکن نہیں۔‘
اکتوبر 2019 میں صدر ڈاکٹر عارف علویٰ نے ایک آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرکے پی ایم سی قائم کیا تھا۔ مائدہ کا کہنا ہے کہ مختلف صوبوں میں تعلیم کا معیار بھی مختلف ہے ایسے میں ان سب کو ایک ہی پالیسی کے تحت کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ ’سندھ میں طلبہ زیادہ سے زیادہ 82 یا 83 فیصد ہی مارکس لے پاتے ہیں جبکہ وفاقی بورڈ اور پنجاب میں تو 94 فیصد مارکس لینا معمولی سی بات ہے، اب دونوں کا آپس میں کیسے مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟'
ان کے مطابق پی ایم سی کے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ امتحانات کے دوران افراتفری رہی۔ ’امتحانات کے لیے مرکز کا تعین نہیں ہوسکا کہ طلبہ کس مرکز پر جاکر پرچہ دیں گے۔ میرا مرکز پہلے گلگت کی کسی یونیورسٹی میں رکھا گیا، بعد میں حیدرآباد اور پرچے سے ایک رات پہلے دو بجے کراچی کے علاقے ناظم آباد میں رکھ دیا گیا، جہاں کرونا وائرس کے ایس او پیز پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ امتحانات کے بعد صرف 32 فیصد طلبہ کو پاس کیا گیا۔‘
مائدہ کے مطابق جب طلبہ نے احتجاج کیا کہ وہ امتحانات کے دوران جن طلبہ کی کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے ان کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے، تو پی ایم سی نے مجبوراً علیحدہ علیحدہ امتحانات کا بندوبست کیا۔
’پی ایم سی نے 29 نومبر کو منفی کرونا والوں کا امتحان لیا، 14 دن بعد کرونا کے مثبت نتیجے والوں کا امتحان رکھا گیا، جس میں ایم سی کیو کے 17 سوالات وہی تھے جو پہلے کرونا سے محفوظ والوں کے امتحان میں آچکے تھے۔‘
احتجاج کرنے والے طلبہ کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن امتحانات کے دوران کورس سے باہر آنے والے معروضی سوالات کو کینسل کرنے، امیدواروں کی جوابی کاپی کو ویب سائٹ پر جاری کرنے، 14 مشکوک معروضی سوالات پر دیے گے گریس مارکس کی وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کی رپورٹ کو پبلک کرے۔
مائدہ کا کہنا ہے کہ ’اگر پی ایم سی ہمارے مطالبات نہیں مانتا تو دوبارہ امتحان لیا جائے، اس کے علاوہ سندھ حکومت 18 ترمیم کے تحت داخلہ امتحان خود لے، ڈومیسائل کی شرط لازمی کرے اور پرائیویٹ میڈیکل یونیورسٹیوں کے لیے یکساں فیس سٹرکچر کو ترتیب دیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ایم سی کے میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کوآرڈینیٹر سرمد حسن نے نامہ نگار عبداللہ جان سے گفتگو میں بتایا ’طلبہ کو پابند نہیں کیا گیا کہ انھیں کسی اور شہر کے کالج میں ہر حال میں داخلہ لینا ہے، اگر کوئی طالب علم کسی اور شہر نہیں جانا چاہتا تو فارم میں کسی اور شہر کے کالج والا آپشن نہ چُنیں۔‘
امتحان کے دوران پیپر دیر سے شروع ہونے کی شکایت کے حوالے سے انھوں نے تسلیم کیا کہ کچھ امتحانی مراکز پر پیپر دیر سے شروع ہوا مگر وہاں موجود طلبہ کا اسی حساب سے وقت بڑھا کر دیا گیا تھا۔
ایک اور سوال کے جواب میں سرمد نے اعتراف کیا کہ 11 نومبر کو ہونے والے امتحانات میں 14 سوالات اور 13 دسمبر کو ہونے والے امتحان میں سات سوالات کورس سے باہر سے تھے ’مگر بعد میں طلبہ کو ان سوالات کے مارکس دے دیے گئے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ 29 نومبر کو منفی کرونا والوں کے امتحان اور 14 دن بعد کرونا کے مثبت نتیجے والوں کے امتحان میں ایم سی کیو کے 17 سوالات وہی تھے جو پہلے کرونا سے محفوظ والوں کے امتحان میں آچکے تھے، کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سوال بینک وہی تھا، مگر سوالات تبدیل تھے، ایسا نہیں تھا کہ وہی سوال دوبارہ دیے گئے ہوں۔