کشمیر کی بند جامع مسجد بھارت کی مذہبی آزادی کی نفی

مسجد کے ایک عہدیدار الطاف احمد بھٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ مرکزی مسجد ہے جہاں ہمارے آباؤ اجداد، علما اور روحانی اساتذہ نے صدیوں سے عبادتیں اور نمازیں ادا کی ہیں۔‘

ایک کشمیری نماز کی ادائیگی سے قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر کی جامع مسجد میں 13 نومبر 2021 کو وضو کر رہے ہیں۔ یہ مسجد جمعے کو نمازیوں کے بند ہے (تصویر: اے پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے گرمائی درالحکومت سری نگر کی عظیم الشان جامع مسجد اپنے وسیع مرکزی دروازے اور میناروں کے باعث علاقے میں نمایاں طور پر پرکشش منظر پیش کرتی ہے۔

اس تاریخی مسجد میں 33 ہزار نمازی عبادت کر سکتے ہیں اور عیدین جیسے خاص تہواروں پر لاکھوں مسلمان یہاں ہر سال جمع ہوتے ہیں۔

لیکن بھارتی حکام اس مسجد کو ایک مسائل پیدا کرنے والی جگہ کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں احتجاج اور جھڑپوں کا سلسلہ متنازع کشمیر پر بھارت کی خودمختاری کو چیلنج کرتا ہے۔

دوسری جانب کشمیری مسلمانوں کے لیے یہ نماز جمعہ کی ادائیگی کا ایک مقدس مقام ہے اور ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ اپنے سیاسی حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں۔

بھارتی فورسز اور کشمیریوں کے درمیان تلخ تنازع کے دوران یہ مسجد دو سالوں سے زیادہ عرصے بند رہی ہے۔

مسجد کے امام کو اس وقت سے مسلسل نظر بند رکھا گیا ہے اور جمعہ کے دن مسجد کے مرکزی دروازے کو تالے لگا کر ٹین کی چادروں سے بند کر دیا جاتا ہے۔ مسجد کی بندش نے کشمیریوں کے غم و غصے کو مزید ہوا دی ہے۔

پانچ دہائیوں سے اس مرکزی مسجد میں نماز ادا کرنے والے ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم 65 سالہ بشیر احمد نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ مسجد کی بندش ایک مستقل (تکلیف دہ) احساس ہے جس سے زندگی میں کمی محسوس ہوتی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے بار بار پوچھے جانے کے باوجود بھارتی حکام نے مساجد کی پابندیوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

ماضی میں حکام نے کہا تھا کہ حکومت کو مسجد کو بند کرنے پر مجبور کیا گیا ہے کیونکہ یہاں کی انتظامی کمیٹی مسجد کے احاطے میں بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے میں ناکام رہی تھی۔

چھ صدی پرانی اس مسجد کو بند کرنے کا عمل 2019 میں اس وقت شروع ہو گیا تھا جب ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے اُسی سال اگست میں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کر کے وادی میں سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

بھارتی حکومت کے اس انتہائی اقدام کے بعد گذشتہ دو سالوں میں کشمیر کی کچھ دیگر مساجد اور مزاروں میں مذہبی عبادات کی اجازت دی گئی ہے۔

تاہم حکام نے جامع مسجد میں ابھی تک جمعے کی نماز کی اجازت نہیں دی کیوں کہ جمعے کے اجتماع میں یہاں دسیوں ہزار افراد جمع ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسجد کے ایک عہدیدار الطاف احمد بھٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ مرکزی مسجد ہے جہاں ہمارے آباؤ اجداد، علما اور روحانی اساتذہ نے صدیوں سے عبادتیں اور نمازیں ادا کی ہیں۔‘

انہوں نے بھارتی حکام کی جانب سے پابندی کے حوالے سے پیش کی جانے والی وجوہات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو متاثر کرنے والے سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بات چیت کسی بھی مسجد کا بنیادی مذہبی کردار ہے۔

جامع مسجد بنیادی طور پر جمعے کی اجتماعی نماز اور خصوصی تہواروں کے لیے مخصوص ہے۔ روزانہ کی فرض نمازیں عموماً محلے کی چھوٹی مساجد میں ادا کی جاتی ہیں۔

کشمیر کے مسلمانوں کے لیے مسجد کی بندش ماضی کی دردناک یادیں لے کر آئی ہے۔

1819 میں سکھ حکمرانوں نے اسے 21 سال کے لیے بند کر دیا تھا۔ پچھلے 15 سالوں سے یہ متواتر بھارتی حکومتوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً پابندیوں اور لاک ڈاؤنز کا شکار رہی ہے۔ لیکن مودی حکومت کی موجودہ پابندیاں سب سے زیادہ سخت ہیں۔

اس متنازع خطے میں مسلح جدوجہد سے غیر مسلح بغاوتوں کی طرف منتقلی کے دوران بھی دسیوں ہزار شہری بار بار سڑکوں پر بھارتی تسلط کے خلاف احتجاج کرتے رہے اور اس دوران پتھراؤ کرنے والے رہائشیوں اور بھارتی فوجیوں کے درمیان ہلاکت خیز جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ سری نگر کے قلب میں واقع جامع مسجد اور اس کے آس پاس کے علاقے ان مظاہروں کا مرکز بن کر ابھرے ہیں۔

جامع مسجد میں خطبات اکثر بھارت مخالف جذبات پر مبنی ہوتے تھے جہاں علیحدگی پسند رہنماؤں میں سے ایک میر واعظ عمر فاروق اور خطے کے سرکردہ مذہبی رہنما کشمیر کی سیاسی جدوجہد کو اجاگر کرنے والے شعلہ انگیز تقریریں کرتے تھے۔ جس کے بعد حکام نے مسجد میں طویل مدت تک نماز ادا کرنے پر پابندی لگا دی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسجد کو 2008، 2010 اور 2016 میں کم از کم 250 دنوں کے لیے بند رکھا گیا تھا۔

2014 میں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے اور 2019 میں بھاری اکثریت سے دوبارہ انتخابات جیتنے کے بعد یہاں مسلح تنازعہ پھر شدت اختیار کر گیا۔ نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیری علیحدگی پسندوں کے خلاف اپنا موقف سخت کیا جس نے کشمیر کے مسلمانوں میں مایوسی کو مزید گہرا کر دیا۔

اس صورت حال نے کشمیر میں عسکریت پسندی کی نئی لہر کو جنم دیا جہاں مسلح باغی بھارت کی حکمرانی کو چیلنج کر رہے ہیں۔

بھارت کے آئین میں مذہب کی آزادی کو شامل کیا گیا ہے جو شہریوں کو مذہب کی پیروی اور آزادی سے عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن کشمیر میں موجودہ سکیورٹی آپریشنز کے تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارت کے مسلمانوں کے حالات ابتر ہو چکے ہیں۔

کشمیر میں سب سے زیادہ قابل احترام مسجد پر پابندی نے ان خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

کشمیر کے شاعر اور مورخ ظریف احمد ظریف نے کہا: ’جامعہ مسجد کشمیری مسلمانوں کے عقیدے کی روح کی نمائندگی کرتی ہے اور تقریباً چھ صدیاں قبل اس کی بنیاد کے بعد سے یہ سماجی اور سیاسی حقوق کے مطالبات کا مرکز رہی ہے۔ اس کی بندش ہمارے ایمان پر کاری ضرب ہے۔‘

رمضان کے آخری عشرے کے دوران بھی پچھلے دو سالوں سے یہاں اعتکاف اور عبادات پر پابندی ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندی ان کی مذہبی آزادی کے آئینی حق کے خلاف ہے۔

احمد نامی نمازی نے کہا کہ انہوں نے اتنی طویل مدت تک اس مسجد کو کبھی بند اور ویران نہیں دیکھا۔

احمد نے مزید کہا: ’میں احساس محرومی کا شکار ہوں۔ ہمیں انتہائی روحانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

بہت سے کشمیری مسلمان سمجھتے ہیں کہ نئی دہلی کی حکومت امن و امان کے نام پر ان کی مذہبی آزادی کو سلب کر رہی ہے جبکہ وہ یہاں ہندو یاترا کو فروغ اور اس کی سرپرستی کر رہی ہے۔

امرناتھ یاترا تقریباً دو ماہ تک جاری رہتی ہے جہاں بھارت بھر سے لاکھوں یاتری کشمیر پہنچتے ہیں۔

ویران جامع مسجد کے قریب بھارتی سیاح خار دار تاروں سے گھیرے اور اس کے مقفل مرکزی دروازے کے پس منظر میں سیلفیاں لینے میں مصروف ہیں جب کہ کشمیری خاموشی سے انہیں دیکھ رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا