کیا بلوچستان حکومت غیر قانونی ٹرالنگ کا خاتمہ کرسکتی ہے؟

جیونی میں فشریز محکمے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لال بخش بلوچ کہتے ہیں کہ ’غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والے طاقتور ہیں۔ ہم صرف ان کو بھگا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔‘

حکومت نے حق دو تحریک کے سربراہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں  جس میں ٹرالنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا ہے (تصویر: اے ایف پی/ فائل)

صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک ماہ سے زیادہ جاری رہنے والا احتجاجی دھرنا 16 دسمبر کو اپنے اختتام کو پہنچا، جس میں شامل ماہی گیروں کا یہ مطالبہ منظور ہوا تھا کہ سمندر سے ٹرالنگ یاغیر قانونی طور پر ماہی گیری کا خاتمہ کیا جائے گا۔

دھرنے سے خطاب میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے کہا تھا کہ غیر قانونی ٹرالنگ اور سرحد سے تجارت کے مسائل کو میں نے حلف اٹھانے کے ساتھ ترجیحات میں رکھا ہے۔ انہوں نے احتجاج کرنے والوں سے وعدہ کیا کہ اب سے غیر قانونی ٹرالنگ کی اجازت نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگرغیر قانونی ٹرالنگ کی شکایت ملی تو متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

حکومت نے حق دو تحریک کے سربراہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ جس میں غیر قانونی ماہی گیری کے خاتمے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ 

معاہدے میں کہا گیا کہ دھرنے کے مطالبے کے مطابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کا تبادلہ ہوچکا ہے۔ پسنی، اورماڑہ / لسبیلہ میں آئندہ اگر کوئی ٹرالر اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کی حدود میں پایا گیا تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ 

اس میں مزید یہ شامل ہے کہ نگرانی اورٹرالنگ کی روک تھام کے لیے جوائنٹ پیٹرولنگ کی جائے گی جس میں انتظامیہ اور ماہی گیر شامل ہوں گے اور ماہی گیر نمائندگان کو باقاعدہ فشریزآفس میں ڈیسک  فراہم کیا جائے گا۔

معاہدے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ سمندر میں ماہی گیری کے لیے 12 ناٹیکل میل کو 30 ناٹیکل میل میں تبدیل کرنے کی تجویز متعلقہ فورم کو بھیجی جائے گی اور ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی آزادی ہوگی۔ 

ماہی گیر اتحاد کے رہنما خداداد واجو کہتے ہیں: ’اس وقت معاہدہ ہوگیا اور ہم مولانا ہدایت الرحمٰن کے اتحادی ہیں۔ ہم مطمئن تو نہیں۔ لیکن ہم نے ان اعلانات پر عمل درآمد کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔‘

ماہی گیر خداداد واجو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بنیادی مسئلہ ٹرالنگ مافیا کی روک تھام ہے اور جو طاقتور لوگ ہیں ان کو روکنے میں فشریز کا محکمہ بظاہر ناکام نظر آتا ہے۔ 

انہوں نے کہا: ’چونکہ حکومت سے مذاکرات اور معاہدہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے خود کیا تو ہم اس کا حصہ نہیں ہیں۔ تاہم ہم نے اس کی حمایت کی ہے۔ اس لیے ہم نتائج کا انتظار کررہے ہیں۔‘ 

خداداد واجو نے بتایا کہ ٹرالر مافیا طاقتور ہے، اس کو ختم کرنے میں مشکلات تو ہیں۔

انہوں نے کہا: ’کچھ عرصے سے ہم دیکھتے ہیں کہ غیر قانونی ٹرالنگ میں تیزی آئی ہے اور بااثرافراد بھی پشت پناہی کرر ہے ہیں۔‘

’مولانا ہدایت الرحمٰن کے ساتھ ہیں۔ تاہم ہمارے تحفظات موجود ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ معاملات ہمارے حق میں بہتر ہوئے ہیں۔‘ 

’جہاں تک سمندر میں جانے کی آزادی کی بات ہے تو خداداد نے بتایا کہ کوہ باتیل پکنک پوائنٹ، دیمی زر، پدی زر پر چیک پوسٹس موجود ہیں۔ جن کے خاتمے کے لیے ہم احتجاج کررہے تھے۔‘

ٹرالنگ ہے کیا؟

اس وقت ہم یہ جاننے کی کوشش کرہے ہیں کہ بنیادی طور پر ٹرالنگ کیا ہے اور اس کا نقصان کس طرح ماہی گیروں کو ہورہا  ہے؟

ماہی گیروں کے رہنما اور ان کے مسائل کے حوالےسے جدوجہد کرنے والے خداداد واجو کا کہنا تھا: ’غیر قانونی ٹرالنگ ایسا عمل ہے جس کے لیے لوگ بیرونی علاقوں سے آتے ہیں اور گوادر، پسنی، جیونی اور اورماڑہ میں یہ لوگ  سمندر میں مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔ ان کے پاس جدید قسم کے جال ہوتے  ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’حالیہ دھرنے کے باعث کسی حد تک خوف کی لہرموجود ہے۔ تاہم اورماڑہ، جیونی، پسنی میں شکار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ان جالوں کے ذریعے یہ لوگ سمندر کی تہہ میں موجود مچھلیوں اور دیگر آبی حیات، اور مینگرووز تک کو اس جال کے ذریعے اٹھا لیتے ہیں۔ جو اس علاقے کی شکار گاہوں کو نقصان پہچانے کے علاوہ مچھلیوں کی موجودگی پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔

خداداد نے بتایا: ’ایک اندازے کے مطابق ٹرالنگ کرنے والوں کی تعداد 2500 تک ہوسکتی ہے۔ ان میں سے ہرایک ٹرالر 30 ہزار سے زائد مچھلیاں شکار کرلیتا ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں مقامی ماہی گیر 400 سے لے کر 500 کلو گرام شکار کرسکتا ہے۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ یہ مسئلہ تقریباً کوئی 20 یا 25 سال سے موجود ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر جیونی میں فشریز محکمے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لال بخش بلوچ کہتے ہیں کہ ’غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والے طاقتور ہیں۔ ہم صرف ان کو بھگا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔‘ 

لال بخش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہر ٹرالرمیں 20 سے 25 افراد ہوتے ہیں۔ جو باہر کے علاقوں سے آتے ہیں۔ ان  کوپکٹرنا مشکل ہے۔ یہ طاقتور مافیا ہے اور ہمارے پاس فورس نہیں ہے۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ شکار کرنے کے دوران سمندر سے ان چھوٹی مچھلیوں کو پکڑ لیتے ہیں۔ اس میں بہت سے دوسری آبی حیات بھی آجاتی ہے، جن کو یہ لوگ ضائع کردیتے ہیں۔ 

لال بخش نے بتایا کہ ہم نے بہت سے غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والوں کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرکے عدالت میں پیش کرکے سزا بھی دلوائی لیکن ان کے پاس وسائل ہیں اور وکیل بھی ان کے پاس ہیں۔ جو ان کو بری کروا دیتےہیں، جب کہ ہمارا صرف انسپکٹر پیش ہوتا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ایسے بہت سے کیسز میں غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والے بعد میں بری بھی ہوئے ہیں۔ کیوں کہ بقول ان کے پاس کوئی وکیل نہیں ہے۔ 

اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کے مطابق: ’اگر ہمیں وسائل دیےجائیں اور فورس مل جائے تو ہم 12 ناٹیکل میل کے علاقے میں ان کو شکار سے روک سکتے ہیں لیکن بعض دفعہ انہوں نےمجھ پرحملہ بھی کیا ہے۔‘ 

ان کا کہنا ہے کہ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ٹرالر مافیا کے پاس اسلحہ بھی ہوسکتا ہے اوررات کے اوقات میں ماہی گیروں پر فائرنگ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ 

لال بخش نے بتایا: ’ہمارے پاس پیٹرولنگ بوٹ اور سپیڈ بوٹ بھی ہوتی ہیں۔ ہم کارروائی کرتے ہیں۔ لیکن ہم صرف ان کو وقتی طور پرکام سے روک سکتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ مقامی ماہی گیر ایسے جال استعمال کرتے ہیں جن میں بڑی مچھلیاں پھنس جاتی ہیں اور چھوٹی نکل جاتی ہیں، غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والے سب  شکار کرلیتے ہیں۔ 

لال بخش کہتے ہیں کہ چونکہ رات کو لائٹ بند کرکے شکار کرتے ہیں اور بیرونی طور پر ٹرالنگ کرنے والے بعض اوقات مقامی ماہی گیروں کے جال بھی لے جاتے ہیں اور ان کی کشتیوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا: ’اب اگر کسی وقت رات کو کارروائی کرنی پڑی اور ہمارے پاس فورس نہ ہو توہم ان کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ کبھی ہم لیویز کی مدد لیتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان