گوادر تحریک: آدمیوں کے سمندر میں رپورٹنگ کی اور میرا بال بھی بیکا نہ ہوا

امی نے سنتے ہی ہاتھ پیر چھوڑ دیے کہ ان کی جوان بیٹی رات کے اندھیرے میں بلوچستان تک سفر کرے گی۔ امی کے لیے بلوچستان کی خبروں کا تاثر اکثر منفی رہا ہے تو وہ اسی پر یقین کرتیں مگر ابو نے انہیں ہمت دلائی اور کہا کہ ’بیٹی ہماری ایک باہمت صحافی ہے، جانے دو۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کی رپورٹر رمیشہ علی کے محسوسات اور گوادر دھرنے میں رپورٹنگ کی داستان (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

نو دسمبر کی دوپہر ڈھائی بجے اچانک باس کا میسج آیا کہ ’گوادر جانا ہے کوریج کے لیے؟‘ میں نے جھٹ پٹ ہامی بھر لی مگر اس وقت معلوم نہیں تھا کہ یہ صرف ایک پراجیکٹ نہیں بلکہ میری زندگی کے بہترین سفری اور رپورٹنگ تجربات میں سے ایک ہوگا۔

اس وقت تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اصل سفر رات کے چار بجے شروع ہوگا۔ امی نے سنتے ہی ہاتھ پیر چھوڑ دیے کہ ان کی جوان بیٹی رات کے اندھیرے میں بلوچستان تک سفر کرے گی۔ آخر امی کے لیے ٹی وی اور واٹس ایپ پر بلوچستان کی خبروں کا تاثر اکثر منفی رہا ہے تو وہ اسی پر یقین کرتیں۔ مگر ابو نے انہیں ہمت دلائی اور کہا کہ ’بیٹی ہماری ایک باہمت صحافی ہے، جانے دو، خیر سے واپس آئے گی۔‘ مگر فکر تو ان کے چہرے پر بھی واضح تھی۔ 

سفر شروع کرنے سے قبل میں نے بلوچستان کے ساحلی شہر اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مرکز گوادر میں 15 نومبر سے جاری حق دو بلوچستان تحریک کے احتجاج اور ریلی کی تمام معلومات حاصل کرلیں اور آنے والے دو دنوں کی کوریج کا پلان بھی بنا لیا۔

حق دو بلوچستان تحریک گوادر کے زیر اہتمام احتجاجی دھرنا 15 نومبر کو شروع ہوا اور 32 روز تک جاری رہا۔ مطالبات پورے ہونے کے بعد یہ دھرنا 16 دسمبر کو ختم کردیا گیا۔ مقامی افراد کے مطابق اس تحریک میں گوادر کی مقامی خواتین کی جانب سے ایک تاریخی ریلی بھی نکالی گئی جس کی مثال بلوچ تہزیب و ثقافت میں کہیں نہیں ملتی۔

واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ میرا بلوچستان کا پہلا صفر تھا یا یوں کہہ لیں کہ بلوچستان کے کسی شہر میں جا کر رہنے اور وہاں سے رپورٹنگ کا پہلا تجربہ تھا۔ مجھے پہلی ملاقات، پہلے سفر اور پہلے تجربے والی ایکسائٹمنٹ تھی، اس لیے بھی کیوں کہ میں عام طور پر سندھ سے ہی رپورٹنگ کرتی ہوں۔

مگر اس سے قبل میں نے اپنے صحافتی حلقے میں یہی سنا تھا کہ بلوچستان کی میں رپورٹنگ کرنا خاص طور سے خواتین کے لیے کافی مشکل ہے۔ اب اس کی باریکیوں میں نہیں جائیں گے کہ ایسا کیوں ہے، بس یہ سمجھ لیں کہ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کا اس حوالے سے ہماری ذہن سازی میں کافی اہم کردار ہے۔

اس لیے ایک ساحلی شہر کراچی سے دوسرے ساحلی شہر گوادر تک کا سفر شروع کرتے ہی میں نے اپنی ایکسائٹمنٹ تھوڑی سائڈ پر کی اور ایک رسک اسسمنٹ کیا۔ اس لیے تاکہ رپورٹنگ کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو میں پہلے سے تیار رہوں اور فوری اقدامات کر سکوں۔

رات کے ٹھیک چار بجے گاڑی میرے گھر کے باہر تھی جس میں میرے کولیگ اور سینئیر رپورٹر نعمت خان بھی موجود تھے۔ نعمت خان عرب نیوز میں سندھ اور بلوچستان کے نمائندے ہیں۔ وہ کئی بار بلوچستان کا سفر کر چکے ہیں اور جن راستوں پر ہماری گاڑی چلنے والی تھی ان سے بخوبی واقف ہیں۔ مجھے اور میرے والدین کو خوشی تھی کہ ایک تجربہ کار ساتھی میرے ساتھ سفر میں موجود ہے۔

گوادر شہر کراچی سے 634 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ سفر مکران کوسٹل ہائی وے کے ذریعے تقریبا چھ سے سات گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔

ہماری گاڑی جیسے ہی کراچی کی حدود کے نزدیک پہنچی، میں نے اپنی سینڈلز اتاریں اور اپنی جیکٹ کو تہہ کرکے سر کے نیچے رکھ لیا۔ میرا پورا پلان تھا کہ سورج طلوع ہونے تک اپنی نیند پوری کروں گی مگر مجال ہے کہ ایک بھی جھونکا آیا ہو۔ ہاں ایک کمزور گھڑی آئی جب آنکھیں ہلکی ہلکی جھپکیں مگر اس وقت جب گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ 

کیا حسین آسمان تھا! جیسے کوئی رات کی تاریکی میں ایک ٹھہرے ہوئے سمندر کے سامنے کھڑا ہو اور سمندر کی تہہ سے سفید چمچماتے موتی سطح پر آکر چاند کو سلامی دے رہے ہوں۔ اتنا صاف آسمان، اتنے سارے ستارے کراچی میں کہاں دیکھنے کو ملتے ہیں؟َ کراچی ہمارے ملک کا معاشی حب ہے مگر بدقسمتی سے یہ دھول، دھوائے اور مٹی کا حب بھی ہے۔ ہم تو کراچی کی مصنوعی روشینوں میں اتنے گم ہوجاتے ہیں کہ کبھی سوچتے ہی نہیں ان گہرے بادلوں کے پیچھے یہ دلکش آسمان چھپا ہوا ہے۔

بس پھر کیا تھا، میں سونے اور جاگنے کی برزخی کیفیت میں، کانوں میں میوزک لگائے آسمان کو تکتی رہی اور کچھ ہی دیر میں سورج نے بھی اپنی باہیں کھولیں اور بلوچستان کی وسیع سرزمین میں ہمارا استقبال کیا۔

ہماری گاڑی مکران کوسٹل ہائی وے سے گزر رہی تھی جس کے دونوں اطراف نظارے ہی نظارے ہیں۔ بلوچستان کے چٹیلے پہاڑوں میں ایک الگ ہی قسم کی کشش اور پراسراریت ہے۔ یہ پہاڑ قدرتی طور ایسی اشکال میں ہیں جسے یہاں ہزاروں سال پہلے کوئی شاہی قلعے اور محل ہوتے ہوں جوکہ اب ان پہاڑوں کے اندر چھپے ہوئے ہیں۔

ہم نے بالاخر پانچ گھنٹے بعد اپنی گاڑی روکی اور بلوچستان کے علاقے کنڈ ملیر کے ایک ویوئنگ پوائنٹ سے سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔ سورج کی روشنی کنڈ ملیر کے حسین ساحل سے ٹکراتی بحیرہ عرب کی لہروں کو چوم رہی تھی۔ میں نے اپنا موبائل نکالا اور تصاویر لیں۔ کنڈ ملیر کا ساحل انتہائی صاف و شفاف ہے، یہاں سے سمندر کے پانی کا رنگ ایک دم نیلا اور فیروزی لگتا ہے اور یہی اس جگہ کی خاصیت ہے۔ البتہ کھانے پینے اور صاف باتھ روم جیسی سہولیات یہاں اتنی نہیں۔

ہم نے فوری طور پر ناشتہ کیا اور اپنا سفر ایک بار پھر شروع کردیا۔ اگلے تین گھنٹوں میں ہم بلوچستان کے شہر گوادر میں موجود تھے۔ آگے ایک بہت لمبا دن تھا، جس کی تیاری کے لیے مجھے صرف ایک گھنٹہ ملا۔ 10 دسمبر کو جمعہ تھا اور باجماعت نماز کے بعد مردوں کی ایک بڑی ریلی نکلنی تھی۔ اسی دوران مقامی خواتین کو گوادر کے نو تعمیر شدہ سٹیڈیم سے کچھ ہی فاصلے پر قائم پنڈال میں کچھ گھنٹوں تک دھرنے کا مقام سنبھالنا تھا۔

رپورٹنگ اور شوٹنگ کے تمام آلات کے ساتھ میں ہوٹل سے نکلی اور گاڑی میں سیدھا پنڈال پہنچی، جہاں میں نے حق دو بلوچستان کو تحریک کے سربراہ اور جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی سیکٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن کا انٹرویو کیا۔ اس وقت تک پنڈال میں صرف مرد موجود تھے اور ریلی کے مقام کی جانب بڑھنے کی تیاری کر رہے تھے۔

انٹرویو کے فورا بعد ہی شرکا نے اس مقام کی جانب بڑھنا شروع کیا تو ہم نے بھی فورا اپنی گاڑی نکالی اور اس مقام پر پہنچے تاکہ جب ریلی شروع ہو تو رپورٹنگ کر سکیں۔

تقریباً ایک گھنٹے میں ہی گوادار کے مختلف علاقوں سے مرد ریلی کے مقام پر جمع ہوگئے اور آہستہ آہستہ چلنا شروع کردیا۔ ہمارے گاڑی ایک کونے میں لگی ہوئی تھی۔ میں بھی سائڈ پر کھڑی ہو کر اپنے سامنے سے گزرنے والے افراد کا انٹرویو لے رہی تھی اور ویڈیوز بنا رہی تھی۔ تقریبا 15 سے 20 منٹ گزرنے کے بعد بھی مردوں کی تعداد کم نہیں ہوئی۔ وہ بڑے اور چھوٹے گروپس میں بس چلے جارہے تھے۔ جہاں تک نگاہ جاتی مرد ہی مرد تھے۔ البتہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ابھی تک غلطی سے بھی نہ کوئی مجھ سے ٹکرایا تھا نہ ہی مجھے اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا جب کہ عموماً ایسی ریلیوں میں اب تک یہ ہوچکا ہوتا ہے۔

میں نے اس لمحے فیصلہ کیا کہ جیسے ہی موقع ملے یہاں سے گاڑی نکال کر مرین ڈرائیو پر پہنچ جاتی ہوں اور وہاں سے بہتر اور وسیع نظارے کے ساتھ فیس بک لائیو کرتی ہوں۔

اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس مجمعے میں دور دور تک میں ہی واحد خاتون تھی۔ میں نے کالے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور میرے سر پر دوپٹہ تھا۔ میرے کاندھوں پر بیگ اور ہاتھوں میں گمبل، کیمرا اور مائک تھا۔

میں گاڑی میں شارٹ کٹ لے کر ریلی سے پہلے ہی مرین ڈرائیو پر پہنچ گئی۔ وہاں ساحل کی باؤنڈری وال کے ساتھ کچھ بینچ نصب تھے۔ میں ایک بینچ پر جاکر کھڑی ہوگئی تاکہ سامنے سے آںے والی ریلی کے بہترین مناظر قید کر سکوں۔ ریلی آہستہ آہستہ میری جانب بڑھنے لگی۔ میں نے جب آدمیوں کا سمندر اپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھا تو مجھ پر اچانک سے ہیبت طاری ہوگئی۔ زندگی بھر کے لیے وہ منظر میری یادداشت پر نقش ہوگیا ہے۔

میرے ذہن میں اچانک مینار پاکستان والا واقعہ گھومنے لگا اور 2019 میں جمعیت علما اسلام کے آزادی مارچ میں اپنے ساتھ رپورٹنگ کے دوران ہونے والی بدتمیزی کا خیال مجھے ڈرانے لگا۔ مجھے خوف تھا کہ اتنے سارے آدمیوں نے اگر مجھے ہراساں کیا تو نہ جانے کیا ہوگا مگر مجھے احساس نہ تھا کہ تمام مرد اور معاشرے ایک جیسے نہیں ہوتے۔

میں ایک بینچ کے اوپر کھڑی تھی اور میرے آگے پیچھے، دائیں بائیں مرد ہی مرد گزر رہے تھے۔ میں نے اپنا کام جاری رکھا اور کسی نے مجھے کچھ نہ کہا اور نہ ہی مجھ سے بد تمیزی کی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ انسان جب انسانوں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں تو ہمیں حیرانی ہوتی ہے۔

میں نے آدمیوں کے سمندر میں رپورٹنگ کی اور میرا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ میں اس مقام سے اتر کر تھوڑا آگے آگئی جہاں ریلی کچھ دیر کے لیے رک گئی تھی کیوں کہ مولانا ہدایت الرحمن ایک ٹرک کے اوپر کھڑے ہو کر ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ کئی شرکا خطاب سننے کے لیے زمین پر پیٹھ گئے تھے۔ میں ریلی کے ساتھ ہی کھڑی ہو کر اپنا فیس بک لائیو اور کمنٹری کا رہی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ منتظمین نے میری کمنٹری کی آواز سنی اور مجھے ٹرک کی جانب آںے کی دعوت دی۔ شروع میں میں ہچکچائی کیوں کے میرے سامنے مرد ہی مرد تھے اور چل کر ٹرک تک جانے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔

کچھ افراد کھڑے ہوئے تھے کچھ زمین پر بیٹھے تھے۔ میں نے جب آگے آنے کی ہامی بھری تو جیسے کسی بڑی اور اہم شخصیت کو پروٹوکول دیا جاتا ہے، مرد زمین سے اٹھ کر سائڈ پر کھڑے ہوگئے اور میرے لیے خصوصی طور پر راستہ بنایا گیا۔

میں ٹرک کے پاس پہنچی، اپنی رپورٹنگ کی اور واپس جانے لگی تو مجھے جگہ دینے کے لیے پھر سے میرے لیے لوگوں نے مل کر راستہ بنایا۔ میرا دل اتنا خوش ہوا کہ یہ ناقابل بیان ہے۔

کہاں میری امی اس فکر میں مبتلا تھیں کہ میں بلوچستان کے ایک انتہائی خطرناک اور سیاسی طور پر غیر مستحکم حصے میں رپورٹنگ کرنے جا رہی ہوں اور کہاں مجھے ایسی عزت ملی کہ میں زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔ یقیناً کسی جگہ اور اس کے لوگوں کے بارے میں تب تک کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے جب تک آپ اس جگہ کے لوگوں کے ساتھ نہ رہیں اور وقت نہ گزاریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان