’2020 میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد کرک میں آئی تبدیلی کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہاں کے لوگوں نے ہمیں اپنے گھروں میں جگہ دی۔ یہ سب کچھ اتنا سندر ہے کہ لگتا ہے میں کوئی سپنا دیکھ رہا ہوں۔‘
بھارتی شہر دہلی سے تعلق رکھنے والے امول ملہوترا جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ مذہبی پیشوا شری پرام ہنس دیال مہاراج کی سمادھی پر حاضری دینے کے لیے گزشتہ روز تشریف لائے ہیں، نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا؛
’میرے ساتھ اہلیہ، دو بچے اور والدہ ہیں۔ کرک آنے کے لیے ہم پچھلے سات سال سے جتن کررہے تھے۔ اس دوران پاکستان کے دوسرے شہروں کا ویزہ تو مل گیا تھا لیکن حالات کی وجہ سے ٹیری مندر کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں واقع 117 سال پرانامندر جس پر دسمبر 2020 میں مسلمانوں کے ایک مشتعل ہجوم نے حملہ کرکے مکمل طور پر مسمار کر دیا تھا، تعمیر نو مکمل ہونے کے بعد پہلی مرتبہ بھارت ، دبئی، امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے آنے والے والے یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز دو سو کے قریب ہندو یاتری یہاں آئے جن میں 170 بھارت سے جب کہ باقی کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ اور دیگر ممالک سے تھا۔
ضلع کرک کے بانڈہ داؤد شاہ میں واقع ٹیری مندر کےنائب منتظم روہیت کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے پچیس سال میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مقامی لوگوں نے سمادھی کی زیارت کرنے والے ہندوؤں کی اتنی آؤبھگت اور مہمان نوازی کی۔
’اس مندر کو پہلی مرتبہ 1997 میں اور پھر 2020 میں مسمار کیا گیا تھا۔ پہلے واقعے کے بعد ہندوؤں کا اس علاقے میں داخلہ بند کروا دیا گیا تھا۔ جو بھائی چارے کا مظاہرہ اب دیکھنے میں آرہا ہے،یہ ایک بہت اچھا اقدام ہے۔ اس سے امن کو فروغ ملے گا۔‘
خواتین اور بچوں سمیت تقریباً دو سو ہندو یاتریوں کے لیے ہندو کونسل پاکستان اور حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تاہم اس دوران مقامی لوگوں نے بھی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے ان کو اپنے مہمان خانوں میں خوش آمدید کہا۔
ان ہی میں سے کرک کے پینسٹھ سالہ محمد عرفان اللہ غوریزئی بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یخ بستہ موسم اور گیس لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مہمانوں کو مندر میں مسئلہ ہورہا تھا لہذا انہوں نے بھی بعض خاندانوں کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔ ’ہم نے سلینڈر پر پانی گرم کر کرکے انہیں دیا۔ میں پشتون روایات واقدار پر عمل کرنے والا پشتون ہوں اور میں مہمان کو خدا کی رحمت سمجھتا ہوں۔ یہ پیار اور احترام دیکھ کر وہ رو رہے تھے۔‘
محمد عرفان اللہ نے بتایا کہ ان کے دادا، شری پرام ہنس مہاراج کو ذاتی طور پر جانتے تھے ’باوجود ایک امیر شخص ہونے کے مہاراج جی ایک ملنگ طبیعت ، شریف النفس اور خدا ترس انسان تھے۔ ہنس مہاراج نے اس علاقے میں امن وآشتی سے وقت گزارا ہے اور اسی کا درس دیتے رہے ہیں۔‘
امول ملہوترہ کی اہلیہ وارونہ ملہوترہ نےبھی انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ سچ ہے کہ کرک کے مسلمانوں کی مہمان نوازی دیکھ کر فرط جذبات سےکئی زائرین کی آنکھیں بھر آئیں۔
’ہم کس کس کا شکریہ ادا کریں۔ یہاں کی پولیس کا، حکومت کا یا کرک کے رہائشیوں کا۔ اپنے احساسات بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ہم نے سنا تھا کہ پاکستان کے لوگ مہمان نواز ہوتے ہیں، لیکن ہم نے انہیں اس سے بھی بڑھ کر پایا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسز ملہوترہ نے بتایا کہ انڈیا میں بس کے ذریعے واہگہ بارڈر تک آنا اور پھر لاہور ائیر پورٹ سے پشاور آنا بذات خود ایک دلچسپ تجربہ رہا اور اس دوران انہوں نے جو دیکھا وہ انہیں تاعمر یاد رہے گا۔
’میں ضلع کرک کی گلیوں میں ٹہلنا چاہ رہی تھی۔ پولیس بلا چوں چرا ہماری بات مان کر ہمیں سیکیورٹی دیتی جا رہی تھی۔ راستے میں ایک انکل نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی، اور ہمیں اپنے گھر والوں سے ملوایا۔ چائے کے ساتھ لوازمات کا اہتمام کیا۔ پھر ہم کرک کی ایک مارکیٹ گئے، جہاں دکانداروں نے ہمارے بچوں کو مفت ٹافیاں اور چپس دیے۔‘
ہندو یاتریوں کے مطابق، کرک میں ان کا قیام صرف ایک رات کا تھا اور وہ آج یعنی دو جنوری کو واپس یا تو اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے یا پھر پاکستان کے دیگر شہروں کے مذہبی مقامات پر حاضری دیں گے۔
کرک کے علاقے ٹیری میں ’کرشنا دوارہ‘ کے نام سے تعمیر کردہ مندر 1904 میں اس وقت بنایا گیا تھا جب اتر پردیش سے ایک ہندو مذہبی رہنما ’شری پرام ہنس دیال مہاراج‘ ترک وطن کرکے اس علاقے میں آئے۔
1919 میں جب وہ چل بسے تو ان کی یہیں پر سمادھی بنا دی گئی، بعد ازاں اراضی تنازعے کی وجہ سے اس مندر کو مقامی لوگوں نے دو دفعہ مسمار کیا۔ نتیجتاً، ساڑھے تین سو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تھی، جب کہ ان میں سے 121 افراد پر ناقابل ضمانت دفعات لگا کر گرفتار کیا گیا تھا۔