کیا ٹی ایل پی پنجاب میں ’پندرہ سے پچیس‘ نشستیں لے سکتی ہے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق ’تحریک لبیک مذہبی قوت ضرور ہے لیکن ابھی تک سیاسی طاقت دکھانے میں کامیاب نہیں۔ گزشتہ عام انتخابات کے دوران بھی انہیں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک کم کرنے کے لیے میدان میں اتاراگیا، لیکن زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔‘

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پارٹی کے رہنما سعد رضوی 21 نومبر 2021 کو لاہور میں اپنے والد خادم حسین رضوی کی برسی کے موقع پر خطاب کر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کا سیاسی جوڑ توڑ شروع ہوچکاہے، ایک طرف حکمران جماعت اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی کوشش میں ہے تو دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتیں بھی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہیں یہی وجہ ہے ٹی ایل پی کی قیادت کے رہا ہونے پر حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتون کے رہنماؤں نے ان سے ملاقاتیں کیں ۔

اس صورتحال میں وفاقی وزیر داخلہ نے نجی ٹی وی دنیانیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں مذہبی طور پر ابھرنے والی تحریک لبیک آئندہ انتخابات میں پندرہ سے پچیس نشستیں حاصل کر سکتی ہے جومسلم لیگ ن کے لیے مشکلات پیداکرے گی۔

حکومتی وزیر کی جانب سے اس بیان پر سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے۔ ٹی ایل پی کے سیاسی کردار کو اہم ضرورسمجھا جارہاہے مگر مجبوری کی حد تک تسلیم کرنے کو کوئی سیاسی جماعت تیار نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ٹی ایل پی کی جانب سے بھی ابھی تک کسی سیاسی جماعت سے سیاسی اتحاد کا اعلان نہیں کیا گیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں سے اس بارے میں رائے لی گئی تو انہوں نے ٹی ایل پی کے سیاسی کردار کو پنجاب میں کسی سیاسی جماعت کے لیے خطرناک قرار نہیں دیا ان کے بقول ن لیگ کے امیدواروں کو شکست دینے کے لیے گزشتہ عام انتخابات میں بھی ٹی ایل پی اور ملی مسلم لیگ کو میدان میں اتار گیا تھا جس کے بعد ٹی ایل پی پنجاب کی زیادہ ووٹ لینے والی تیسری جماعت ضرور تھی مگر اس سے ن لیگ کے نتائج پر زیادہ فرق نہیں پڑ سکا البتہ پی ٹی آئی امیدواروں کو فائدہ ضرور پہنچاتھا۔

تحریک لبیک سیاسی میدان میں کامیابی کے لیے کتنی پرامید ہے؟

ترجمان ٹی ایل پی صدام حسین بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ان کی ’جماعت مذہبی حکمت عملی کے ساتھ سیاسی میدان میں اترنے کی بھر پور تیاری کر رہی ہے۔ کے پی میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ٹی ایل پی امیدواروں نے خاطر خواہ ووٹ لیے اسی طرح پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے تیاریاں جاری ہیں اور امیدوار فائنل کیے جارہے ہیں۔‘

صدام حسین کے بقول ’جہاں تک پنجاب میں عام انتخابات کے دوران نشستیں حاصل کرنے کا سوال ہے تو اس بارے میں ابھی کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے کیونکہ ابھی ہم نے کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد یا علیحدہ سے امیدوار کھڑے کرنے کی منصوبہ بندی شروع نہیں کی ہماری قیادت کا خیال ہے کہ بجائےسیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے، پہلی ترجیح اہلسنت سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ بڑا سیاسی اتحاد بنایاجاسکے۔‘

انہوں نے کہاکہ ’ویسے تو جب ٹی ایل پی کے قائد خادم حسین رضوی کا عرس ہوا تو تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حاضری دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیاتھا، اس لیے سیاست میں راستہ تو ہر ایک لیے کھلا ہے مگر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘

ترجمان ٹی ایل پی کے مطابق ان کی جماعت کی عوام میں مقبولیت بڑھتی جارہی ہے اس لیے ’اب پہلے سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھریں گے۔‘ ان سے پوچھاگیاکہ موقف بھی سخت گیر کی بجائے سیاسی ہوگا؟انہوں نے جواب دیا کہ ’پہلے بھی حکومت نے علامتی مظاہروں پر بات نہیں سنی تھی تو سخت موقف اپنانا پڑا تھا اب بھی اپنے مطالبات کے لیے پر امن احتجاج کی پالیسی کو ہی ترجیح دیں گے۔‘

پنجاب میں ٹی ایل کسی جماعت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکے گی؟

اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’تحریک لبیک مذہبی قوت ضرور ہے لیکن ابھی تک سیاسی طاقت دکھانے میں کامیاب نہیں۔ گزشتہ عام انتخابات کے دوران بھی انہیں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک کم کرنے کے لیے میدان میں اتاراگیاتھا لیکن زیادہ کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ وہ تیسرے نمبر پر زیادہ ووٹ لینے والی جماعت ضرور تھی لیکن نشست ایک بھی حاصل نہیں کر سکی تھی۔‘

سہیل وڑائچ کے بقول ’آئندہ عام انتخابات میں بھی وہ زیادہ سے زیادہ بعض نشستوں پر پانچ سے چھ ہزار ووٹ لے سکتی ہے، نشست اب بھی جیتتی دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ گزشتہ کئی انتخابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اب مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے، ہمدردیاں ضرور رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ ٹی ایل پی ن لیگ یا کسی جماعت کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی غلط ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سہیل وڑائچ نے کہاکہ ’حکمران جماعت پی ٹی آئی ہو، مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی، جو بھی ٹی ایل پی سے اتحاد کرے گا انہیں سیٹ دینا پڑے گی، تو جو جماعت نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں اسے کوئی جماعت نشستیں دے کر سیاسی اتحاد کیوں بنائے گی؟‘

صحافی تجزیہ کار سلمان غنی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ ’ٹی ایل پی سوائے ایک پریشر گروپ کے زیادہ اہمیت نہیں بنا سکی، سیاست میں کامیابی کا پیمانہ نشستیں حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن ابھی تک کسی بھی الیکشن میں تحریک لبیک نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہیں جس مقصد کے لیے تیار کیاگیاتھا، وہ پہلے حاصل ہوا اور نہ ہی اب ہوسکتاہے۔‘

سلمان غنی کے بقول ’شیخ رشید نے ٹی ایل پی کی پندرہ سے پچیس تک نشستیں لینے کا جو بیان دیاہے وہ سیاسی دھوکہ ہے جو وہ لوگوں کو دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کیا ان کے بیانات سے خوفزدہ ہوگی جو ان کی اصلیت جانتے ہیں، کہ وہ غیر سنجیدہ بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ البتہ ایسے بیانات دینے سے انہیں گریز کرنا چاہیے، وہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں لوگوں کو ان کے وہ بیانات بھی یاد ہیں جو انہوں نے ٹی ایل پی کے اسلام آباد مارچ کے دوران رکاوٹیں کھڑی کرکے دیے، اس وقت انہیں انتہا پسند نظر آنے والی جماعت آج اگر پنجاب میں سیاسی قوت بنتی دکھائی دے رہی ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔‘

انہوں نے کہاکہ ’ٹی ایل پی نے اگر سیاسی میدان میں کامیاب ہونا ہے تو پہلے انہیں سیاسی رویہ رکھنے والی جمہوری جماعت بن کر دکھانا ہوگا۔ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سخت گیر موقف رکھنے کی بجائے عام شہریوں کے مسائل حل کرنے میں وہ سنجیدہ ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی جماعت پنجاب میں سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوسکی تو ٹی ایل پی فوری کیسے موثرنتائج حاصل کر سکتی ہے؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان