’لیوا ڈانس میں جنگلی بننے کے لیے بچپن سے محنت کی‘

افریقی ساحلوں سے مکران پہنچنے والے ’لیوا ڈانس‘ میں جنگلی کا کردار نبھانے والے 35 سالہ شکیل احمد کے مطابق کئی سالوں کی محنت سے وہ یہ فن سیکھنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کردار کو نبھانے کے لیے وہ منہ سے آگ نکالتے ہیں اور گھاس کھانے والے کرتب بھی کرتے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں موجود ساحل، صحرا اور پہاڑوں کی طرح وہاں کی خوبصورت ثقافت کا ایک جزو ’لیوا ڈانس‘ ہے۔

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ قادر لاسی ایک ڈانس اکیڈمی چلاتے ہیں اور گذشتہ چار دہائیوں سے اس رقص کی ترویج کر رہے ہیں۔

قادر لاسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان کی ساحلی پٹی پر افریقی لیوا ڈانس تقریبا 200 سال سے موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ  اس رقص میں کئی بنیادی تبدیلیاں آئیں تاہم اس رقص میں افریقی جنگلی کا اہم کردار اب بھی موجود ہے۔‘

ان کے مطابق ’لیوا ڈانس مکران کے ساحلوں پر افریقہ سے بطور غلام لائے جانے والے سیاہ فام افراد اور عمان سے آنے والے بلوچوں کے ذریعے پہنچا۔ تاہم پہلے والے اور اب کے لیوا ڈانس میں بہت فرق ہے۔ پہلے لیوا ڈانس سادہ لباس میں کیا جاتا تھا اور اس رقص میں احترام کے تحت جوتے بھی نہیں پہنے جاتے تھے۔‘

’افریقہ میں تو خیر یہ صدیوں سے ہے، مسقط، عمان پھر گوادر آیا۔ تو یہاں پر کراچی میں اس کو پہنچے ہوئے 200 سال ہوگئے ہیں۔ ہم لوگوں نے اس کا افریقی ٹچ برقرار رکھا ہے تاکہ اس کی اپنی جدت اور خوبصورتی قائم رہے۔‘

لیوا ڈانس میں جنگلی کا کردار نبھانے والے 35 سالہ شکیل احمد کا کہنا ہے کہ انھوں نے لیوا ڈانس میں جنگلی بننے کے لیے بچپن سے ہی سخت محنت کی اور کئی سالوں کے بعد اپنے استاد سے یہ فن سیکھنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ اس کردار کو نبھانے کے لیے منہ سے آگ نکالنے اور گھاس کھانے والے کرتب کرتے ہیں۔

انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شکیل کا کہنا تھا کہ ’دراصل ایک افریقی میرا استاد تھا، استاد بھٹو، ابتدا میں اس کے پاس ہی ٹریننگ کررہا تھا، اس نے مجھے آگ والا آئٹم کرنے کو دیا، اوراسی کی وجہ سے میں آگے نکل گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شکیل احمد کا کہنا ہے کہ  لیوا ڈانس پیش کرتے ہوئے متعدد بار وہ زخمی بھی ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود اس پیشے میں اپنے شوق کی وجہ سے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک دو دفعہ میرے ہاتھ جل گئے تھے، ہونٹ بھی جل گئے، پھر بھی یہ شوق میں پورا ہی کروں گا۔‘

شکیل احمد کا کہنا ہے کہ ’میری امی نے مجھے بہت ڈانٹا تھا، امی نے بولا یہ نہیں کرو کیوں کہ یہ رسکی کام ہے، لیکن مجھے شوق تھا۔ میں نے کہا نہیں امی میں یہ کروں گا، مجھے بہت شوق ہے اس فیلڈ کا، میں اس فیلڈ کو نہیں چھوڑوں گا۔ جلوں گا، کچھ بھی ہو، مگر میں یہ شوق پورا کرکے رہوں گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا