ہفتے کو سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق گذشتہ مہینے قطر کے دارالحکومت دوحہ سے یوگینڈا کے ہوائی اڈے اینٹی بی جانے والی پرواز کے دوران ایک کینیڈین ڈاکٹر نے 35 ہزار فٹ کی بلندی پر ایک خاتون کو بچہ پیدا کرنے میں مدد دی۔
پانچ دسمبر کو دوران پرواز قطر ایئرویز کے عملے نے پوچھا کہ کیا جہاز میں کوئی ڈاکٹر سوار ہے۔
ڈاکٹر عائشہ خطیب جو کہ اپنے کام اور طبی تربیت کے سلسلے میں سفر کر رہی تھیں، نے سوچا کہ جہاز میں کسی کو دل کا دورہ پڑا ہے۔
بی بی سی کے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر خطیب کا کہنا تھا کہ ’میں نے لوگوں کی بڑی تعداد کو ایک مریض کے گرد جمع دیکھا۔‘
ڈاکٹر خطیب کو ایک 25 سالہ خاتون دکھائی دیں جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ یہ خاتون سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ایک تارک وطن تھیں اور اپنے گھر جا رہی تھیں، اس وقت زچگی کے درد میں مبتلا تھیں۔
ڈاکٹر خطیب کا کہنا ہے کہ ’میں نے ان خاتون کو دیکھا، وہ سر نیچے کر کے جہاز کے فرش پر لیٹی تھیں اور ان کی ٹانگیں کھڑکی کی جانب تھیں اور بچہ پیدا ہو رہا تھا۔‘
Is there a doctor on the plane?Never thought I’d be delivering a baby on a flight! @qatarairways Thanks to the airline crew who helped support the birth of this Miracle in the air! Mom and baby are doing well and healthy! #travelmedicine pic.twitter.com/4JuQWfsIDE
— Aisha Khatib, MD (@AishaKhatib) January 13, 2022
انہوں نے سی ٹی وی کو بتایا کہ بچے کی پیدائش میں دو اور مسافروں نے بھی ان کی مدد کی۔ ان میں سے ایک نرس جب کہ دوسرا مسافر ڈاکٹرز ودھ آؤٹ بارڈرز کے ساتھ کام کرنے والے پیڈیاٹریشن تھے۔
جب بچی کی پیدائش ہوگئی تو پورا جہاز خوشی سے جھوم اٹھا اور سب تالیاں بجانے لگے۔
ڈاکٹر خطیب کہتی ہیں: ’میں نے اس موقع پر کہا، مبارک ہو، یہ ایک لڑکی ہے۔ تو اس وقت جہاز میں موجود سب مسافروں نے تالیاں بجانا اور خوشی منانا شروع کر دی۔ پھر میں نے سوچا میں ایک جہاز پر ہوں اور یہاں موجود سب افراد یہ دیکھ رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ پھر میں نے کہا مجھے پٹیاں، قینچیاں درکار ہیں، اگر پٹی نہیں ہے تو جوتوں کے تسمے بھی چلیں گے۔‘
انہوں نے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ ’خوش قسمتی سے اس وقت میڈیکل کٹ میں ڈیلیوری کٹ بھی موجود تھی اس لیے ہم ناف کی نالی کو کاٹنے اور پٹی کرنے کے قابل ہوئے۔‘
پیدا ہونے والی بچی 35 ہفتوں کی تھی اور وہ صحت مند تھی۔ بچی کا نام ڈاکٹر کے نام پر میریکل عائشہ رکھا گیا۔
ڈاکٹر خطیب کا کہنا تھا کہ ’اس کہانی کا سب سے بہترین حصہ یہ ہے کہ انہوں نے بچی کا نام میرے نام پر رکھا۔‘
ڈاکٹر خطیب نے اس وقت اپنے پاس موجود نیکلس بھی اس بچی کو دے دیا۔ نیکلس پرعربی میں ان کا نام عائشہ لکھا ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سوچا کہ مجھے یہ اسے دے دینا چاہیے تاکہ یہ اس ڈاکٹر کی یادگار رہے جس نے اسے 35 ہزار فٹ کی بلندی پر دریائے نیل کے اوپر پرواز کرتے ہوئے پیدا کیا۔‘
ڈاکٹر خطیب نے ایسی زچگی میں درپیش مشکلات کے حوالے سے بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب آپ اتنی بلندی پر ہوتے ہیں تو آپ کو آکسیجن کے کم دباؤ کی فکر ہوتی ہے جو ممکنہ طور پر بچے کے سانس لینے کے نظام کو دباؤ میں ڈال سکتا ہے۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’ایسی صورت میں بعد از زچگی ہیمرج اور خون بہنے کے خطرات ہمیشہ رہتے ہیں اور اگر آپ کے پاس ماں کو مستحکم رکھنے کے لیے خون نہیں ہے تو یہ ہمیشہ ایک بڑی ایمرجنسی کا خطرہ بن سکتا ہے۔‘
© The Independent