جمہوریت، کلائمکس، طوطا اور فال!!!

اپوزیشن ناکام ہو کر بھی ناخوش نہیں ہے۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ حکومت اپنی جگہ پر قائم ہے چاہے اس کی وجہ ان کے اتحادی ہوں، ان کے کالز کرنے والے یا ان سے محبت کرنے والے۔

13 اگست 2022 کے منی بجٹ اجلاس میں شریک وزیر اعظم عمران خان گنتی میں حصہ لے رہے ہیں (پی آئی ڈی)

خواہشات کب خبر پر غالب آ جاتی ہیں علم نہیں لیکن حکومت کی عددی حیثیت اور اتحادیوں کے ساتھ تعلقات پر جو سنسنی ہر بار قوانین کی منظوری پر پھیلائی جاتی ہے وہ زیادہ تر ان ہی خواہشات پر مبنی ہوتی ہے۔

ایک خواہش جو بار بار خبر کی صورت میں آتی ہے وہ ہے کہ امپائر نیوٹرل ہو گیا ہے یا پھر ایک صفحہ نہیں رہا۔ ان دعووں کی حقیقت پرکھنے کے لیے کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ان دعووں کی بنیاد کسی ٹھوس حقیقت پر ہے یا ہم مبہم باتوں سے غیر ضروری معانی نکال لیتے ہیں۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ خواہشات کے ساتھ ساتھ کچھ موضوعات سے جڑی ہماری رومانویت بھی ہماری خبروں اور تجزیوں کو متاثر کرتی ہے۔ ہمارے تجزیے ایک خاص طبقے کی خواہشات سے متاثر ہو کر حقائق کے ساتھ گڈ مڈ ہونے لگتے ہیں۔

خبر دینے والے بھی تجزیہ کاروں کے ناز و انداز سیکھنے لگے ہیں۔ اب رپورٹر قیافہ شناس بھی ہیں اور چہرہ شناس بھی۔ منی بجٹ منظوری پھر دعووں پر مبنی تجزیوں کا دن تھا۔ حکومت کو جب بھی اپنی عددی برتری ثابت کرنا ہوتی ہے وہ کامیابی سے کر لیتی ہے لیکن یہ برتری ثابت کرنے تک کا مرحلہ ہماری برادری کے لیے دلچسپی اور مصروفیت کا کافی سامان لیے ہوتا ہے۔ 

ہم اب خبر ڈھونڈنے کے لیے قیافہ شناسی تک جا پہنچے ہیں۔ منی بجٹ جب سے پیش ہوا تھا تب سے ہی اس شو کو گرمانے کے لیے اہتمام ہونے لگ گیا تھا۔ اگرچہ سب کو معلوم تھا کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حکومت گنتی میں جیت جائے گی پھر بھی ایک ہیجان برپا تھا۔

کچھ ہونے والا ہے کا تاثر لیے معنی خیز مسکراہٹوں والے سیاست دان اور تجزیہ کار پچھلے چند دن سے خوب دکان چمکائے ہوئے تھے۔ یہ ہیجان دانستہ بطور شغل پیدا کیا جاتا ہے تا کہ لوگوں کی اس کھیل میں دلچسپی قائم رہے۔ گنتی کا دن قریب آیا تو ظہرانے، عشائیے، قربتیں رقابتیں سب ہی اپنے اپنے پینترے دکھانے میں لگ گئے۔

کون کس سے خفا ہے؟ کون کس سے ملنا چاہتا ہے ہر طرف سے رابطوں میں تیزی آگئی۔ ایک بار پھر حکومت کے اندر دراڑ کا دعویٰ کرتی اپوزیشن کے لہجے کی شوخی بڑھنے لگی۔ اینکرز اور تجزیہ کاروں کے اندر چھپے فکشن رائٹرز امڈ امڈ کر باہر آنے لگے۔ عمران سیریز پڑھ کر جوان ہونے والے رپورٹر عشائیوں اور ظہرانوں میں غیر مرئی قوتوں کو ڈھونڈنے میں لگ گئے۔

ہمیں خبر کی تلاش چہرہ شناسی تک لے گئی ہے۔

چند دن قبل چمکتے دمکتےچہرے کے ساتھ جہانگیر ترین کو ن لیگی رہنماؤں کے ساتھ ایک شادی کی تقریب میں دیکھنا ان کے چہرے کی مسکراہٹ سے معنی اخذ کرنا ان کے جہاز کی سمت کو حالات کی سمت سے تعبیر کرنا شاید اس تاثر کو مضبوط کر گیا کہ اس بار حکومت اپنی عددی برتری برقرار نہیں رکھ پائے گی۔

ہمیشہ کی طرح ایم کیو ایم پاکستان نے ڈرامے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ ووٹ نا دینے کا کہہ کر اپنے ہونے کا بھرپور احساس دلایا جیسے روٹھا محبوب کچھ باتیں صرف اس لیے کرتا ہے کہ وہ منانے والے کو بتائے کہ اسے منانا کیسے ہے۔ کچھ ایسا ہی قصہ ایم کیو ایم پاکستان کا ہے وہ ماننے کے لیے روٹھتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ جس بات پر روٹھتے ہیں مانتے اس سے الگ ہی کسی بات پر ہیں۔ وہ سیاسی حالات میں ہیجان اور سنسنی بڑھانے میں ہر بار کامیاب ہو جاتے ہیں۔ 

ہمارے ساتھی اس بار بھی ڈھونڈتے رہے کہ کون سے ارکان پارلیمان کے اجلاس میں لائے گئے ہیں، کون سے بلوائے گئے ہیں اور کون سے بھجوائے گئے ہیں۔ کسی کی چال سے اندازہ لگایا گیا اور کسی کی آدھی ادھوری باتوں سے۔ مگر اس بار ہیجانی کیفیت کو کلائمکس پر پہنچانے میں وزیر دفاع پرویز خٹک کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جناب نے پارلیمانی کمیٹی میں وزیراعظم سے اختلاف رائے کیا اچانک ماحول پر جوش ہو گیا۔ ان کے حوالے سے پہلے ہی تاثر بنا ہوا ہے کہ ’بدلے بدلے سے سر کار نظر آتے ہیں۔‘ خیبر پختونخواہ الیکشن کے نتائج اور عوامی دباؤ کا سامنا کرنے والے پرویز خٹک پارلیمانی اجلاس میں ذرا اکھڑے تو لوگوں کو لگا جیسے نظام اکھڑنے لگا ہے۔

پرویز خٹک نے خطرے کی گھنٹی بجا کر سب کا ہوشیار باش کر دیا۔  گنتی کا وقت آنے تک ہیجانی کیفیت اپنے عروج پر تھی۔ مگر پھر جذبات کا وقت زوال آیا۔ حکومت سے برہم، ناراض، اکھڑے، بچھڑے، ٹوٹے سبھی ارکان اس جمہوریت کے کھڑکی توڑ شو میں شریک تھے۔ وزیراعظم عمران خان کو ڈیسک بجا کر خوش آمدید کہا گیا۔ 

عوام کے دکھ سے نڈھال ہونے کے دعویدار بھی اس اجلاس میں ہشاش بشاش بیٹھے تھے۔ جمہوریت کے داعی اور منکر بھی چوکنے بیٹھے تھے۔ ڈیسک کی تھاپ سے خود کو تھپکیاں دینے والے پرجوش ہجوم میں گنتی گنتی کا کھیل ہوا۔ پانچ گھنٹے کے شو کا نتیجہ جمہوریت تھا جن کے پاس عددی برتری وہ ہی بادشاہ۔

حکومت نے قومی اسمبلی میں احتجاج کرتی اپوزیشن کے سامنے منی بجٹ کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی منظور کرا لیا۔ اب ہماری اگلی مصروفیت عدم اعتماد کے لیے قیافہ شناسی ہے۔ حکومت کو لگ رہا ہے کہ منی بجٹ پاس کرانا ان کی بڑی کامیابی ہے مگر اس کامیابی کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی حکومت کی معاشی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔

اس لیے شاید اپوزیشن ناکام ہو کر بھی ناخوش نہیں ہے۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ حکومت اپنی جگہ پر قائم ہے چاہے اس کی وجہ ان کے اتحادی ہوں، ان کے کالز کرنے والے یا ان سے محبت کرنے والے!!! 

نوٹ: یہ تحریر منصفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ