’لگتا تو نہیں کہ یہ سدھرے ہیں‘: مری کھل گیا مگر سڑکیں خالی

ایک سیاح کا کہنا تھا: ’ڈر تو لگا ہمیں، ڈرتے ڈرتے آئے ہیں۔ مگر جو ہوٹلز کے چارجز ہیں وہ ڈاون نہیں ہوئے ہیں، مہنگائی اسی طرح عروج پر ہی ہے، اگر انتظامیہ مہنگائی کو کنٹرول کرسکےتھوڑا سا تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘

جنوری کے پہلے ہفتے میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے مری کے سیاحتی مقام کو دس روز بند رکھنے کے بعد آج سے کھول دیا، مگر پاکستان کے سب سے مشہور سیاحتی مقام کی رونقیں اب بظاہر ویسی نہیں رہیں۔

سات جنوری کی شب مری کے راستے میں واقع کلڈنہ میں 20 سے زائد سیاح برف کے طوفان میں گاڑیوں میں پھنس گئے اور بروقت امداد نہ ملنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

انتظامیہ نے اس واقعے کے بعد مری کو وقتی طور پر بند کردیا اور 17 جنوری کو محدود پیمانے پر سیاحوں کے لیے کھولا۔

نیشنل ڈسزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی ایکٹ 2010 کے تحت انتظامیہ ایک دن میں صرف 8000 گاڑیوں کو مری میں داخل ہونے دے رہی ہے۔

اس موقع پر مری کا راستہ سنسان دیکھائی دیا جب کہ جگہ جگہ پولیس اہلکار اور برف ہٹانے والے ٹرک کام پر مامور دکھائی دیے۔

مری کے قریب ایک سیاحوں کی فیملی دکھائی دی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک شہری اپنی دو بیویوں سمیت مری میں سیر کے لیے راولپنڈی سے گئے تھے۔

شہری کی دوسری بیوی نے بات کرتے ہوئے بتایا: ’ہم سب کچھ جانتے ہوئے ادھر آئے ہیں۔ ہم نے نیوز میں دیکھا تھا کہ مری آج سے کھل گیا ہے تو ہم یہاں راولپنڈی سے آئے ہیں۔‘

صنم نامی خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی فیملی بشمول بچے مکمل تیاری کے ساتھ آئے ہین اور ان کے کسی جاننے والے کا ہوٹل ہے جہاں وہ قیام بھی کرینگے۔

دوسری جانب مال روڈ جہاں کسی عام دن پر تل دھرنے کو جگہ میسر نہیں ہوتی وہاں ایک دو سے زائد سیاحوں کی فیملز مشکل سے دیکھنے میں آئیں۔

ایک شخص کا کہنا تھا کہ: ’یہاں آکر لگ تو نہیں رہا ہے کہ یہ لوگ سدھر گئے ہیں۔ ہمیں بہت تنگ کررہے ہیں یہ لوگ، گاڑی تک پارک نہیں کرنے دیتے۔‘

جب کہ ایک ہوٹل مالک نے کہا:’مری مری ہے، اور ہم عباسی لوگ ہیں،اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘

 

حالیہ واقعات سے متعلق ایک دکاندار نے بتایا کہ کیونکہ یہاں بہت ماحول ہوتا تھا نہ بائیک آسکتے تھے یا گاڑی کا راستہ ہوتا تھا ۔

دکاندارنے پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’یہ مین جی پی او چوک ہے جہاں کوئی رش نہیں ہے اور دکاندار پریشان ہیں۔ وہ روز صبح آٹھ بجے آتے ہیں اور واپس آٹھ بجے بند کر کے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ دکاندار ہیں جو صبح چھ بجے آتے تھے اوررات کے دو بجے تک یہاں بیٹھے ہوتے تھے، دکان بند نہیں کرتے تھے مگر اب انہیں بہت فرق پڑا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہاں لوگ حادثے کی وجہ سے ڈرے ہوئے ہیں ۔یہاں پر آپ فی الحال دیکھ سکتے ہیں بالکل خاموشی ہے اور نہ عوام ہیں کچھ بھی نہیں ہے ،یہاں بسیں ٹرک وغیرہ گزر رہے ہوتے ہیں مگر ہمیں یہاں کچھ بھی دیکھنے کو مل رہا نہیں ہے۔

راستے میں جگہ جگہ آرمی کے ٹرک نظر آئے اور کم تعداد میں لوگ انجوائے کرتے ملے۔

ایک سیاح نے اپنے سفر کے بارے میں بتایا: ’ڈر تو لگا ہمیں، ڈرتے ڈرتے آئے ہیں، لیکن ابھی ٹھیک لگا یہاں کا ماحول، روڈز بھی صاف ہیں اور انتظامیہ کی گارگردگی ہمیں بیسٹ نظر آرہی ہے۔ اچھا اقدام اٹھایا ہے، مگر جو ہوٹلز کے چارجز ہیں وہ ڈاون نہیں ہوئے ہیں، مہنگائی اسی طرح عروج پر ہی ہے، اگر انتظامیہ مہنگائی کو کنٹرول کرسکےتھوڑا سا تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بظاہر ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس سیزن سیاح کم ہی اب مری کا رخ کرینگے مگر کچھ ہوٹل مالکان خاصے حواصلے میں دکھائی دیے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مال روڈ کے وویک ہوٹل مالک نے کہا: ’فرق تو بہت پڑا ہے، چند روز سے بس اب چند گاڑیاں ہی گزرتی ہیں، اب دیکھنا پڑے گا کیونکہ سکول بھی کھل گئے ہیں، جمعے سے دیکھیں گے اگر جمعے سے کراوڈ ہوا تو اس کا مطلب ہے لوگ واپس آرہے ہیں۔

کے پی، کراچی کے سکول کھل گئے ہیں، انددرون پیجاب اور سندھ کے سکول بند ہیں اس سے بھی بڑا فرق پڑتا ہے۔

سمجھ نہیں آتی مری والوں کی کردار کشی کیوں کی جاتی ہے یا تو مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ میڈیا میں کچھ لوگوں پیسے دے کرپرموٹ کر رہے ہیں دوسرے علاقوں کو۔ رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے ہمیں اس کا کوئی نہیں، اگر کرونا میں ہمارے رب نے رزق دیا نہ تو یہ تو معمولی سی بات ہے۔‘   


اس خبر میں ویڈیو جرنلسٹ سہیل اختر کی معاونت شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان