مردوں کے طعنے: خواتین ممبران اسمبلی کے لیے راستہ کھل گیا 

بلوچستان اسمبلی کی ایک خاتون رکن کے آواز بلند کرنے کے بعد خواتین اراکین اسمبلی کے بچوں کے لیے چائلڈ کیئر سینٹر کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے۔

مہ جبین شیران

بلوچستان اسمبلی کی ایک خاتون رکن کے آواز بلند کرنے کے بعد خواتین اراکین اسمبلی کے بچوں کے لیے چائلڈ کیئر سینٹر کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے۔

یہ اعلان رکن صوبائی اسمبلی مہہ جبین شیران کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ بلوچستان اسمبلی کے 29 اپریل کو ہونے والے اجلاس کے دوران خاتون رکن اسمبلی مہ جبین شیران کو اجلاس کے دوران شیر خوار بچہ اسمبلی ہال میں لانے پر مرد ممبران نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور انھیں مجبور کیا گیا تھا کہ وہ بچے کے ہمراہ اجلاس سے باہر چلی جائیں۔

لہذا گذشتہ روز بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان الیانی نےفیصلہ کیا کہ بلوچستان اسمبلی میں چائلڈ کیئر سینٹر بنایا جائے گا تاکہ یہ ممبران اپنے ساتھ بچوں کو بھی لا سکیں۔ جس کا اعلان بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران جمعرات کو وزیراعلیٰ بلوچستان کی معاون خصوصی بشریٰ رند نے کیا۔ 

بلوچستان اسمبلی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت اسمبلی میں کل 11 خواتین ممبران ہیں جن میں چھ ایسی خواتین ممبران ہیں جن کے شیر خوار بچے ہیں۔

صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت ان خواتین ممبران کو تمام تر ضروری سہولیات فراہم کرنے کو یقینی بنائے گی۔

انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا: ’وزیر اعلیٰ بلوچستان بچوں کے لیے اسمبلی میں کیئر سینٹر بنانے میں سب پر سبقت لے گئے ہیں۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’پارلیمان میں بے بی ڈے کیئر سینٹر کا قیام 2017 میں ہوا تھا، جبکہ بلوچستان یہ سینٹر بنانے والا واحد صوبہ ہے۔‘

تاہم تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ اس چائلڈ کیئر سینٹر کے لیے الگ سے عملہ بھرتی کیا جائے گا یا پہلے سے موجود عملے سے ہی کام لیا جائے گا۔

اس بارے میں مہ جبین شیران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالیہ  بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جو اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کیا گیا سے قبل صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی ان کے پاس آئے تھے اور بتایا کہ حکومت اسمبلی خواتین ممبران کے لیے چائلڈ کیئر سینٹر قائم کرے گی جس کا اعلان اسمبلی اجلاس کے دوران کیا جائے گا انہوں نے اس حوالے سے مجھ سے مشاورت کی۔

29 اپریل  کے اجلاس کے دوران پیش آنے والے واقعے کے بارے میں مہ جبین نے کہا کہ ’وہ ایک معمول کی کارروائی تھی میں اپنے آٹھ ماہ کے شیر خوار بچے کو لے کر اسمبلی ہال میں داخل ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ اسمبلی میں موجود بعض مرد اراکین مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں جیسے میں نے کوئی غلط کام کر دیا۔‘

مہ جبین کے بقول اس دوران انھیں طنز کا نشانہ بھی بنایا گیا جب ایک رکن اسمبلی کو سپیکر نے پانی پینے سے روکا تو انھوں نے طنز کرتے ہوئے کہا ’جناب سپیکر صاحب آپ ہمیں پانی پینے نہیں دیتے اور لوگ اپنے شیر خوار بچے بھی اسمبلی لاتے ہیں۔‘

موجودہ پیش رفت پر جب ہم نے مہ جبین شیران سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ انھوں نے اس واقعے کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلی میں قرارداد پیش کرائیں گی اور باقاعدہ تحریک کا آغاز کریں گی۔

یاد رہے کہ بلوچستان اسمبلی کے آئین کے مطابق صر ف اراکین اسمبلی اور ایڈووکیٹ جنرل کو ہی داخلے کی اجازت ہے۔ 

مہ جبین شیران حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور خواتین کی مخصوص نشست پر ضلع کیچ سے منتخب ہوئیں۔ 

ان کا موقف ہے کہ وہ یہ جدوجہد صرف بلوچستان اسمبلی کی خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ صوبہ بھر میں کام کرنے والی خواتین کے تھی۔ اس لیے آگے بھی یہ کوشش جاری رہے گی کہ تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں بے بی ڈے کئیر سنیٹرز کے قیام کو ممکن بنایا جائے۔

دوسری جانب بلوچستان کے معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق کسی بھی چائلڈ کیئر سینٹر کیلئے چائلڈ اسپیلشسٹ،چائلڈ سائیکاٹرسٹ اور چائلڈ سائیکالوجسٹ کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ ان بچوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کرسکیں۔ چائلڈ کیئر سینٹر میں چونکہ شیر خوار بچے ہوتے ہیں تو ان کی دیکھ بھال بھی ماہر افراد ہی کرسکتے ہیں۔ 

ڈاکٹر غلام رسول کے بقول چائلڈ کیئر سینٹر کیلئے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس جگہ کمرے کا ماحول کیسا ہے، وہاں کیا کیا سہولتیں میسر ہیں، وہاں بچوں کیلئے کونسی چیزیں ہیں تاکہ وہ کسی زخم، آکسیجن کی کمی، سردی گرمی لگنے اور شور شرابے سے محفوظ رہ سکیں۔ 

ڈاکٹر غلام رسول نے یہ بھی بتایا کہ بلوچستان میں بچوں کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹر تو ہیں لیکن اس کے علاوہ دیگر ماہرین جیسے چائلڈ سائیکاٹرسٹ،چائلڈ سائیکالوجسٹ وغیرہ موجود ہی نہیں ہیں۔  

 

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین