عمرو عیار پر فلم ’نئی اور پرانی نسل کے درمیان تعلق پیدا کرے گی‘

تاریخی کردار عمرو عیار پر پاکستان میں ایک اینیمیٹڈ فلم بنائی جا رہی ہے، جس میں اینیمیشن کے ذریعے 13ویں صدی کا عراقی شہر بصریٰ، پاکستان کا موجودہ انفراسٹرکچر اور ایک خیالی جگہ طلسم ہوش ربا کو دکھایا گیا۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے زمانے میں لکھی گئی داستان امیر حمزہ میں شامل ’طلسم ہوش رُبا‘ کے ایک کردار عمرو عیار پر بہت سی کہانیاں اور ناول لکھے جاچکے ہیں اور اب پاکستان میں اس پر اینیمیٹڈ فلم بھی بنائی جارہی ہے۔

پاکستانی پروڈکشن ہاؤس انجینویٹی پروڈکشنز نے اپنی اینیمیٹڈ فلم ’دی کرانیکلز آف عمرو عیار‘ کے ذریعے عمر عیار کے کردار کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے، جس نے ایک سپاہی اور جاسوس کی حیثیت سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں گہرے نقش چھوڑے ہیں۔

انجینویٹی پروڈکشنز کے بانی محمد حارث بشارت نے بتایا کہ انہوں نے جولائی 2021 میں اس فلم پر کام شروع کیا تھا اور اسے 2023 میں ریلیز کر دیا جائے گا۔

بقول حارث: ’عمرو عیار کے کردار پر ہم اس لیے فلم بنا رہے ہیں کہ آج کی نسل اس خیالی کردار کے حوالے سے کچھ نہیں جانتی۔ ہم نے اپنے نانا نانی، دادا دادی اور والدین سے اس کردار کی کہانیاں سنیں کیوں کہ اس زمانے میں عمروعیار کی کہانیاں کتابچوں کی صورت میں ملا کرتی تھیں۔‘

’اس لیے آج کی نسل اور پچھلی نسل میں ایک تعلق بنانے کے لیے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ایک اینیمیٹڈ فلم بنائی جائے جو پورا خاندان شوق سے بیٹھ کر دیکھے۔‘

حارث کے مطابق ایک اچھے معیار کی اینیمیٹڈ فلم بنانا مشکل کام ہے کیونکہ آپ کو کافی وسائل درکار ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’ہم نے پورے پاکستان سے بہترین فنکاروں کی ٹیم کو جمع کیا جن میں سے کئی فنکار ہالی وڈ کی اینیمیٹڈ فلموں میں کام کرچکے ہیں۔ ہمارے پاس 50 لوگوں کی ٹیم ہے جو اس فلم کو بنانے میں دن رات محنت کر رہی ہے۔ اینیمیٹد فلمیں بنانا اتنا مشکل ہے کہ اکثر ایک منٹ کا سین بنانے کے لیے تقریباً ایک مہینہ لگ جاتا ہے۔‘

اس فلم کے کریٹیو ہیڈ شعیب احمد کا کہنا تھا کہ عمروعیار کا کردار پہلے بھی کافی مشہور تھا اور اب بھی لوگوں کو بہت پسند آئے گا کیوں کہ یہ کردار ہمارے جیسا ہے۔

بقول شعیب: ’وہ شرارتیں کرتا ہے، مذاق کرتا ہے، اسے تحائف اور انعامات اچھے لگتے ہیں۔ وہ بہادر ہے مگر فن سفارت میں بھی کافی مہارت رکھتا ہے۔ اسے جہاں جھکنا ہوتا ہے جھک جاتا ہے اور جہاں ہیرو بننا ہوتا ہے اپنی صلاحیتیں دکھاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عمرو کا کردار بے شک صدیوں پرانا ہے لیکن ہم نے اپنی فلم میں اس کردار کو ماضی، حال، مستقبل میں مختلف روپ میں دکھایا ہے۔

’ہم نے اینیمیشن کے ذریعے 13ویں صدی کا عراقی شہر بصریٰ، پاکستان کا موجودہ انفراسٹرکچر اور ایک خیالی جگہ طلسم ہوش ربا کو دکھایا ہے۔‘

شعیب کے مطابق یہ فلم موجودہ اور پچھلی نسلوں کے درمیان ایک تعلق بنائے گی۔ ’جب ایک خاندان کے سب فرد اسے دیکھیں گے تو ہمارے بڑے بزرگوں اور ہمارے والدین کے لیے یہ کہانی جانی پہچانی ہوگی۔ انہوں نے اب تک جو کتابوں میں پڑھا ہے وہ ہم انہیں اینیمیشن کے ذریعے ان کی سکرینز پر دکھائیں گے،  جو آج کل کی نسل کو کافی پسند ہے۔‘

داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوش ربا کیا ہے؟

طلسم ہوش رُبا داستانِ امیر حمزہ کا ایک حصہ ہے، جس کی تقریباً 46 جلدیں ہیں۔

اردو ادب کے نامور نقاد اور محقق شمس الرحمٰن فاروقی نے پوری داستان کو جمع کرنے اور اس پر تنقید کا فریضہ انجام دیا۔ وہ 25 دسمبر 2020 کو کرونا وبا کے باعث 85 سال کی عمر میں بھارت کے شہر الہ آباد میں وفات پا گئے تھے۔

داستان امیر حمزہ دراصل ایک بہادر شخص حمزہ بن ازرک کی فرضی داستان ہے۔ یہ داستان فارسی سے اردو ادب میں منتقل ہوئی اور اسے اردو میں زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔

طلسم ہوش رُبا کی نو جلدیں کم و بیش 10 ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔

 1880 میں منشی محمد حسین جاہ نامی داستان گو نے اس کی تالیف کی اور 1891 تک اس کی چار جلدیں لکھیں۔

بعد میں ایک اور داستان گو احمد حسین قمر نے 1897میں مزید دو جلدوں کا ’بقیۂ طلسم ہوش ربا‘ کے نام سے اضافہ کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا