پاکستان: یونیورسٹی کی تعلیم کا اندازوں سے کم کردار

بیچلر اور ماسٹر ڈگری رکھنے والے افراد ہائی سکول کی سند کے حامل افراد کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ کماتے ہیں اور یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ کماتے ہیں جنہوں نے بہت کم تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔

لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں 30 نومبر 2021 کو منعقد ہونے والے ہیری پوٹر فیسٹیول میں طلبہ کی آمد کے مناظر (تصویر: اے ایف پی)

پالیسی سازوں کے لیے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاست کی طرف سے قیمتی ترین سرمایہ کاری انسانی سرمایہ تیار کرنا ہے۔ یہ مقصد سکولوں اور یونیورسٹی کی تعلیم، مہارتوں اور پیشہ ورانہ تربیت، صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری، وقت کی پابندی اور اچھا شہری بن کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ماہر معاشیات گیری بیکر کے تعلیم کے انسانی سرمایے سے متعلق نظریے نے اس خیال کو مقبول بنایا کہ ’تعلیم اور تربیت انسانی وسائل میں سب سے اہم سرمایہ کاری ہیں۔ زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں کی آمدن ہمیشہ اوسط سے کافی زیادہ ہوتی ہے اور کم ترقی یافتہ ممالک میں عام طور پر زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔‘

اسی طرح کئی بار کی تحقیق نے ماہرین تعلیم اور پالیسی سازوں کے اس تصور کو تقویت بخشی کہ اعلیٰ درجے کی قابلیت، خاص طور پر یونیورسٹی کی ڈگریاں حاصل کرنے سے معاشی طور پر بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

بیچلر اور ماسٹر ڈگری رکھنے والے افراد ہائی سکول کی سند کے حامل افراد کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ کماتے ہیں اور یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ کماتے ہیں جنہوں نے بہت کم تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔

یہ حقیقت یونیورسٹی کی تعلیم تک رسائی کو فروغ دینے کے لیے ایک محرک ثابت ہوئی ہے کیوں کہ یونیورسٹی کی تعلیم خوشحال اور جدید معاشرے کی تشکیل اور معاشی عدم مساوات کے خلاف لڑائی کی بنیاد ہے۔

اس طرح کی روایتی حکمت کو بہت کم لوگ چیلنج کرتے ہیں لیکن جارج میسن یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر برائن کیپلن نے اپنی کتاب ’تعلیم کے خلاف مقدمہ‘میں اس خیال کو پرجوش انداز میں مسترد کر دیا ہے۔

مائیکل سپنس کے ’جاب مارکیٹ سگنلنگ‘ کے نظریے پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ دلیل دیتے ہیں کہ تعلیم کا زیادہ تر فائدہ نمبر دینے سے ہوتا ہے۔

وہ مختلف اعدادوشمار کی مدد سے بتاتے ہیں کہ قابلیت یا ڈگریاں زیادہ تر فرد کی فطری مہارت یا علم میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرتیں بلکہ صرف ان آجروں کو ’سگنل‘ دیتی ہیں کہ ان لوگوں میں وہ مناسب خصوصیات موجود ہیں کہ انہیں ملازمت دے دی جائے یعنی ان افراد میں ذہانت، ایمانداری اور اطاعت کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔

چوں کہ آجر ان خوبیوں کو اہمیت دیے ہیں اس لیے وہ ان ملازمین کو زیادہ پیسے دیتے ہیں جنہوں نے کامیابی کے ساتھ ڈگری مکمل کر رکھی ہو ان لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے ایسا نہیں کیا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ مزید متنازع بات یہ ہے کہ یونیورسٹیاں دلچسپی نہ رکھنے والے طلبہ کو غیر متعلقہ معلومات فراہم کر رہی ہیں۔

یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے گزارے گئے سالوں کا مقصد انفرادی سطح پر کارکنوں کے اندر موجود تخلیقی صلاحیت کی سطح میں اضافے کی بجائے آجروں کو صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ ’انفرادی سطح پر کارکنوں‘ میں تخلیقی صلاحیت موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیپلن کے استدلال کا لب لباب یہ ہے کہ افراد اور معاشرہ ان قابلیتوں کے حصول میں وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں جو حقیقت میں اس سے کہیں کم سود مند ہیں جو مروجہ تحقیق بیان کرتی ہے۔

ملازمتوں کی جدید مارکیٹ سے متعلق مہارتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اہمیت کا حامل بنانے کی بجائے ہو سکتا ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم تعلیمی تقاضوں اور آجروں کے فراہم کردہ ملازمت کے مواقع کے درمیان عدم مطابقت کی صورت حال کو مزید بگاڑ رہی ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آجر ایک جیسے گروپس میں ملازمین کے انتخاب کے لیے غیر ملکی ڈگری کا تقاضہ کرتے ہیں اور یہ تقاضہ بڑھ رہا ہے۔ اس عمل کا مقصد مناسب امیدواروں زیادہ آسانی کے ساتھ شناخت کرنا ہے۔

ماہر تعلیم ڈاکٹر عائشہ رزاق کہتی ہیں کہ پاکستان میں ’ڈگریوں کی بھرمار‘ کا نتیجہ حقیقت میں ملازمت کے لیے ضروری قابلیت کی بجائے کم از کم اعلیٰ رسمی قابلیت کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

مثال کے طور پر ایسے پیشے جن میں امیدوار کو موثر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے صرف ثانوی سکول سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن اب وہاں بیچلر اور یہاں تک کہ ماسٹر ڈگری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اگرچہ کیپلان کا یہ نقطہ نظر کہ ’حکومت کو کسی بھی قسم کی تعلیم کو فنڈ دینے کے لیے ٹیکسز کے پیسے کا استعمال بند کر دینا چاہیے‘ انتہائی نوعیت کا محسوس ہو سکتا ہے خاص طور پر پاکستان کے تناظر میں جہاں لوگوں کو باصلاحیت بنانے کے لیے پہلے سے ہی کم سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

پالیسی سازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مختلف سطحوں اوراقسام کی تعلیم اور مہارتوں اور تربیت کے درمیان تعلق اور پیداوار، کمانے کی صلاحیت، غربت میں کمی اور معیار میں بہتری سمیت دوسری باتوں پر ان کے قدرتی اثرات کا منظم تجزیہ کریں۔

تعلیم اور ہنر کی تربیت کے مختلف درجات پر افادیت کی شرح کا اندازہ لگانے کے لیے جامع تحقیق کی ضرورت ہے۔

یعنی تعلیم و تربیت پر آنے والی لاگت کے مقابلے میں ایک اوسط فرد کی زندگی بھر کی کمائی کی اہمیت کو جانچا جائے۔ مزید برآں ریاست کی مداخلت کے لیے معاشی شرائط کی بنیاد، خاص طور پر تعلیم اور مہارت کی تربیت کے شعبوں میں، افادیت کی شرح پر ہونی چاہیے۔

افادیت کی یہ شرح نہ صرف مثبت اور متبادل سرمایہ کی صورتوں سے زیادہ ہو بلکہ ضروری ہے کہ آج کی مارکیٹ کے مطابق علم اور مہارت پر اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ یہ صرف جاب مارکیٹ کو اشارہ دینے والے آلات کی طرح نہ ہو۔

پاکستان میں تعلیم کے بارے میں عوامی بیانیے پر یکساں نصاب تعلیم اور ذریعہ تعلیم کے بارے میں فضول بحث کا غلبہ رہا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پیشہ ورانہ اور مہارت کی تربیت جو پیداواری سطح میں اضافے کے لیے ضروری ہو سکتی ہے، پر محدود رقم خرچ کرنے کے مقابلے میں عوامی وسائل کو یونیورسٹی کی ایسی تعلیم کے لیے مختص کرنے کی قدرتی اہمیت پر بحث میں بہت کم دلچسپی دکھائی دیتی ہے جس کے معیار پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔

اس حقیقت پر بہت کم بحث ہوئی ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم زیادہ وقت لیتی ہے، مہنگی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کا تعلق مارکیٹ میں دستیاب ملازمتوں کے ساتھ نہ ہو۔

ایسا بھی ہوا ہے کہ اب تک فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبے کے ڈھانچے اور استعداد دونوں پر تھوڑی سرمایہ کاری کو محدود اہمیت دی جاتی رہی ہے۔

ملک کو وسائل کی جس کمی کا سامنا ہے جس کے پیش نظر ضروری ہو گیا ہے کہ انسانی سرمائے کے فروغ کے مختلف شعبوں کا جائزہ لیا جائے اور ان شعبوں کے لیے فنڈ مختص کیے جائیں جو معاشرے کے لیے سب سے زیادہ مفید ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ