نوجوان بلاگر کا قتل: بلال پر تیز دھار آلے سے 17 بار وار کیا گیا، پولیس

بلال خان کی کئی ویڈیوز اور تحریروں کی بنا پر انہیں مختلف مذہبی حلقوں سے دباؤ کا سامنا رہتا تھا اور سوشل میڈیا پر ہی مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا جاتا رہا ہے، خاندانی ذرائع

سوشل میڈیا پر سرگرم ہونے کے ساتھ ساتھ بلال خان دیگر نوجوانوں کو بلاگنگ اور سوشل میڈیا کا استعمال سکھاتے بھی تھے ( بشکریہ بلال خان ٹوئٹر)

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے طالب علم اور سوشل میڈیا پر سرگرم مذہبی پس منظر کے حامل 22 سالہ نوجوان بلاگر محمد بلال خان کو گذشتہ رات نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔

پولیس حکام کے مطابق واقعہ اسلام آباد کے علاقے جی نائن فور میں پیش آیا جہاں نامعلوم افراد نے بلال خان کو فون کر کے بلایا اور تیز دھار آلے کے کئی وار کر کے قتل کر دیا۔ واقعےمیں ایک شخص زخمی بھی ہوا جسے اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔

بلال خان کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع چلاس سے ہے اور وہ تعلیم کے سلسلے میں اسلام آباد میں رہتے تھے جبکہ ان کے والدین ایبٹ آباد میں مقیم ہیں۔

خاندانی ذرائع کے مطابق بلال خان ایک روز قبل ہی عید کی چھٹیاں گزار کر ایبٹ آباد سے واپس اسلام آباد کے علاقے بہارہ کہو میں اپنے رشتہ داروں کے پاس پہنچے۔

گذشتہ رات مبینہ طور پر عثمان نامی شخص نے انہیں کال کر کے جی نائن فور میں بلایا۔

بلال خان کے زخمی ساتھی احتشام الحق کے ابتدائی بیان کے مطابق جب وہ جی نائن فور میں بتائے گئے مقام کی طرف جا رہے تھے تو گلی کے نکڑ پر جھاڑیوں میں گھات لگائے چار سے پانچ افراد نے ان پر حملہ کر دیا، جس میں بلال وہیں ہلاک ہوگئے۔ پولیس کے مطابق، ان پر 17 بار وار کیے گئے۔ 

بلال خان کے چچا عبدالقادر کے مطابق اسلام آباد میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو ان کے آبائی گاؤں نیاٹ، چلاس، روانہ کر دیا گیا جہاں ان کی تدفین ہو گی۔

بلال خان کو کس نے قتل کیا؟

ایس ایس پی اسلام آباد ملک نعیم اقبال نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بظاہر یہ ذاتی رنجش کا معاملہ ہے۔ تاہم اس کے محرکات میں بلال خان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں سمیت مختلف عوامل شامل ہو سکتے ہیں۔ پولیس ہر پہلو سے تفتیش کر رہی ہے اور جلد کسی نتیجے پر پہنچنے کا امکان ہے۔‘

حکام کو شک ہے کہ حملہ آور بلال کے جاننے والوں میں سے کوئی تھا کیونکہ وہ رات گئے اس طرح کسی اپنے کے ہی کہنے پر گھر سے نکل سکتا تھا۔ ان کے بچ جانے والے ساتھی نے سکیورٹی حکام کو بتایا کہ وہ حملہ آوروں کو نہیں جانتے لیکن ان میں سے ایک کو اگر دوبارہ دیکھیں تو پہچنے کا امکان ہے۔ 

ملک نعیم اقبال نے مزید کہا کہ ’عموماً اس طرح کے معاملات میں ذاتی رنجش کا عمل دخل ہوتا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ چونکہ بلال احمد مذہبی معاملات پر تبصروں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر کافی سرگرم تھے تو عین ممکن ہے کہ اس کے قتل کی وجہ مذہبی یا مسلکی رنجش ہو۔ تاہم اس مرحلے پر حتمی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نامعلوم افراد کے ہاتھوں بلال خان کے قتل کی ایف آئی آر کراچی کمپنی پولیس سٹیشن میں درج کر لی گئی ہے اور پولیس اس سلسلے میں مختلف پہلووں پر تحقیقات کر رہی ہے۔ تحقیقاتی حکام پرامید ہیں کہ یہ کیس جلد حل کر لیا جائے گا۔

خاندانی ذرائع کے مطابق بلال خان کے والد نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی تھی یا انہیں اپنے بیٹے کے قتل کے حوالے سے کسی پر شبہ ہے۔

بلال خان کون تھے؟

22 سالہ بلال خان بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شریعہ قانون میں بی ایس کے طالب علم تھے۔ ان کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقے چلاس کے ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور ان کے والد مولانا عبید اللہ ایبٹ آباد کی ایک مسجد میں خطیب ہیں۔

مذہبی پس منظر کے حامل بلال خان سوشل میڈیا پر کافی سرگرم تھے۔ اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں ملک کے مذہبی، سیاسی اور عسکری حلقوں کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔

بلال خان کے ٹوئٹر پر لگ بھگ 16 ہزار، فیس بک پر 34 ہزار اور یوٹیوب پر لگ بھگ 48 ہزار فالورز تھے۔

سوشل میڈیا پر سرگرم ہونے کے ساتھ ساتھ بلال خان دیگر نوجوانوں کو بلاگنگ اور سوشل میڈیا کا استعمال بھی سکھاتے تھے۔

بلال خان کے چچا عبدالقادر انجم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی کئی ویڈیوز اور تحریروں کی بنا پر انہیں مختلف مذہبی حلقوں کی وجہ سے دباؤ کا سامنا رہتا تھا اور سوشل میڈیا پر ہی مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا جاتا رہا ہے۔ عبدالقادر کا کہنا تھا: ’چونکہ بلال خان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں لہٰذا امکان یہی ہے کہ اس کے قتل میں ایسے ہی کسی مذہبی گروہ کا ہاتھ ہو جو ان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں سے ناراض رہتے تھے۔‘

بلال خان کے قتل کی خبر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر پھیل گئی اور #Justice4MuhammadBilalKhan کا ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر پچھلے کئی گھنٹوں سے ٹرینڈ کر رہا ہے۔

معروف صحافی و تجزیہ کار نسیم زہرا نے لکھا: ’یہ بہت دردناک ہے۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر ہر جگہ ہے۔ امید ہے حقائق جلد سامنے آئیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان