قندیل بلوچ قتل: ’راضی نامہ، گواہوں کا انحراف‘، مرکزی ملزم بری

لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے سوشل میڈیا سٹار اور ماڈل قندیل بلوچ قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم محمد وسیم کو راضی نامے اور گواہوں کے بیانات سے منحرف ہونے پر بری کر دیا ہے۔

ملزم محمد وسیم کو 27 ستمبر 2019 کو ملتان کی ماڈل کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی (اے ایف پی/ فائل)

لاہور ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا سٹار اور ماڈل قندیل بلوچ قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم محمد وسیم کو راضی نامے اور گواہوں کے بیانات سے منحرف ہونے پر بری کر دیا ہے۔

یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ کے جسٹس سہیل ناصر نے پیر کو سنایا۔

ملتان کے تھانہ مظفر آباد میں درج مقدمے کے مطابق 15جولائی 2016 کی رات کو سوتے ہوئے ملزم محمد وسیم نے اپنی بہن فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ کو تیز دھار چھری کے وار سے قتل کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی سوشل میڈیا سٹار اور ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں 27 ستمبر 2019 کو ملتان کی ماڈل کورٹ نے مرکزی ملزم اور قندیل بلوچ کے بھائی محمد وسیم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ مفتی عبدالقوی سمیت دیگر ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا تھا۔

اس کے بعد ملزم وسیم نے عدالت میں سزا منسوخی کی اپیل دائر کر رکھی تھی۔

محمد وسیم کے وکیل سردار محبوب کا کہنا ہے کہ قندیل بلوچ کی والدہ نے ہائی کورٹ ملتان بینچ میں راضی نامے کا بیان حلفی جمع کروایا تھا جبکہ اس سے قبل سیشن عدالت نے راضی نامہ کو نظر انداز کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مدعی اور مقتولہ کے والد وفات پا چکا ہیں جبکہ مقدمے کے گواہان بھی ٹرائل کورٹ میں اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوشل میڈیا سٹار اور ماڈل قندیل بلوچ کی 2016 میں مختلف سیلفیاں اور ویڈیوز معروف عالم دین اور رویت ہلال کمیٹی کے رکن مفتی عبدالقوی کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو ان کو کافی شہرت ملی، تاہم مذہبی حلقوں میں اس معاملے پر مفتی صاحب کو کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کئی علما نے ان کی رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

بعد میں پولیس نے قندیل بلوچ کے ساتھ لی گئی مفتی عبدالقوی کی سیلفیوں، ویڈیوز اور موبائل پر رابطوں کے باعث انہیں بھی مقدمہ میں شامل تفتیش کیا تھا اور اس قتل میں ان کے بھی ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔

قندیل بلوچ قتل کے حوالے سے پیر کو آنے والے فیصلے پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی لالہ رخ چیمہ کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے سچ یہ ہے کہ بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کو معاف کرنا ہمیشہ آسان رہا ہے۔‘

’خود ساختہ ’غیرت‘ کو اس حقیقت سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی کہ ان کا بیٹا قاتل ہے لیکن اس سے ان کی بیٹی کے منتخب کردہ پیشے کو ضرور نقصان پہنچا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’قندیل کی موت اس پرورش اور ذہنیت کی ناکامی کا نتیجہ تھی۔ یہ فیصلہ اسی ناکامی کی کڑی ہے۔‘

’اسے سزا دینا اسے واپس نہیں لائے گا کوئی عذر نہیں ہے۔ ہاں، یہ اسے واپس نہیں لائے گا لیکن یہ یقینی طور پر اس کے بھائی جیسے بہت سے لوگوں کو استحقاق اور توثیق کے بیجوں کے ساتھ واپس لائے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مسئلہ سزا کی شدت کا نہیں بلکہ سزا کی غیر یقینی صورتحال کا ہے جو نظام انصاف کو مذاق بنا دیتا ہے۔‘

اسی طرح خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی لیلہ طارق کہتی ہیں کہ ’میں سچ میں نہیں جانتی کہ اس فیصلے پر کیا کہوں؟ ریاست نے کہا کہ وہ خود کیس کی پیروی کر رہی ہے لیکن ریاست اب کہاں ہے؟ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے قندیل کو انصاف دے کر چھین لیا گیا ہے۔‘

لیلہ طارق کا کہنا ہے کہ ’ریاست قندیل کے کیس میں شکایت کنندہ تھی اس کے باجود ملزم کو چھوڑ دیا گیا تو ریاست پھر نور مقدم کیس میں کیا انصاف دلائے گی؟ ریاست نے آج ایک مرتبہ  پھر ثابت کیا کہ وہ انصاف فراہم نہیں کر سکی۔  ہماری جانوں کی کوئی قدر نہیں ہے، کوئی بھی ہمیں کہیں  بھی غیرت کے نام پر قتل کر دے گا اور ریاست کچھ نہیں کر پائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان