عدالت کا پیکا کے تحت گرفتاریاں نہ کرنے کا حکم، وزیربھی ناراض

عدالت نے پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈینینس کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کا ایک منظر (تصویر:   اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ)

پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈینینس ترمیم کے حوالے سے صحافتی تنظیم کی درخواست کی سماعت کے دوران بدھ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 کے تحت گرفتاریوں سے روکتے ہوئے کہا کہ عوامی نمائندے کے لیے تو ہتک عزت قانون ہونا ہی نہیں چاہیے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ’زمبابوے اور یوگنڈا بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال چکے ہیں۔‘

بدھ کے روز ہونے والی سماعت میں پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کے خلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ نے دلائل دیے۔

وکیل نے کہا کہ 17 فروری کو سینیٹ کا سیشن ختم ہوا اور 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس تھا۔ اجلاس کو صرف اس لیے ملتوی کیا گیا کہ یہ آرڈینینس لایا جا سکے۔ کون سے ایسے حالات تھے جن کی بنیاد پر یہ آرڈینینس جاری کرنے میں جلدی تھی؟

عدالت نے پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈینینس کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ ’ایف آئی اے پہلے ہی ایس او پیز جمع کرا چکی ہے۔ ایس او پیز کے مطابق سیکشن 20 کے تحت کسی شکایت پر گرفتاری عمل میں نہ لائی جائے۔ اگر معیاری طریقہ کار پر عمل نہ ہوا تو ڈی جی ایف آئی اے اور سیکریٹری داخلہ ذمہ دار ہوں گے۔‘

اس موقعے پر کمرہ عدالت میں دیگر صحافیوں کے ساتھ سینیئر صحافی حامد میر بھی موجود تھے۔

اس کیس کی سماعت کل یعنی 24 فروری کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ کل اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔ 

دوسری جانب حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر سید امین الحق نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ دیا۔

انہوں نے خط میں کہا ہے کہ ترامیم میں بلاضمانت گرفتاری اور فیک نیوز کی تشریح نہ ہونے سے ملک میں بے چینی پھیل رہی ہے۔

وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے لکھا ہے کہ پیکا ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کی گئیں، اس لیے وہ ان ترامیم سے متفق نہیں ہیں۔

درخواست کا متن

حکومت نے پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈینینس کے ذریعے ترمیم کی تھی جس کی سیکشن 20 کے تحت پبلک آفس ہولڈر شخصیات یا ادارے، اُن کے بارے میں جب پراپیگنڈا کیا جائے گا یا منفی مہم چلائی جائے گی تو پیکا ایکٹ ترامیم کے تحت ان سزاؤں کا اطلاق ہو گا۔ قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر تین سے پانچ سال سزا ہوگی اور نا قابل ضمانت ہوگی۔

درخواست میں صدر مملکت کے سیکریٹری جبکہ وفاق کو بذریعہ سیکریٹری قانون اور سیکریٹری اطلاعات فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ موجودہ حکومت کے دور میں میڈیا کو بند کیا جا رہا ہے، صحافیوں پر غیر اعلانیہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

پیکا قانون میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کرنے کے لیے کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی۔ قانون سازی کے لیے رائج طریقہ کار سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے جلد بازی حکومت کے مذموم مقاصد کو ظاہر کرتی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ ملک میں آزادی اظہار کا قتل ملک میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ صحافیوں کو اسی قانون کے تحت غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا تھا جس پر ترمیم کرکے اسے مزید سخت بنایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک آمرانہ طرز عمل سے زندہ نہیں رہ سکتا جہاں عوام کو اظہار رائے کے بنیادی حق کو استعمال کرنے کی پاداش میں قید کیا جائے۔

پیکا ایکٹ صدارتی آرڈیننس کیا ہے؟

20 فروری کو حکومت نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔

ترمیم کی تشریح کی مطابق آرڈیننس کے تحت حکومتی اداروں یا شخصیات پر تنقید کا جرم ناقابلِ ضمانت ہوگا۔

پولیس گرفتار کرکے حوالات میں بند کرے گی اور 6 ماہ میں مقدمے کا فیصلہ ہوگا۔ ٹرائل کورٹ ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائیکورٹ میں جمع کرائے گی اور جان بوجھ کر جعلی خبر پھیلانے، علم ہونے کے باوجود غلط معلومات نشر کرنے، کسی شخص کی ساکھ یا نجی زندگی کو نقصان پہنچانے کا جرم ثابت ہوگیا تو زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک کی سزا ملے گی اور10 لاکھ روپے جرمانہ بھی ہوگا۔

ترمیمی ایکٹ میں شخص کی تعریف بھی شامل کردی گئی ہے، حکومتی قوانین سے قائم کی گئی کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ، تنظیم، اتھارٹی شامل ہوگی جبکہ متاثرہ شخص کے ساتھ ساتھ اس کا مجاز نمائندہ یا سرپرست بھی شکایت کر سکے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان