خواتین کو تعداد پوری کرنے والی نمائندگی نہیں چاہیے: نیلوفر بختیار

نیلوفر بختیار نے بتایا کہ ’صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کا نقصان یہ ہوا کہ صوبائی وزارتیں اختیارات کی منتقلی کے لیے پوری تیار نہیں ہیں جبکہ خواتین مشینری نہایت کمزور ہے۔‘

خواتین کے حقوق اور انہیں معاشرے میں انصاف دلانے کے لیے قائم ادارے قومی کمیشن برائے وقار نسواں این سی ایس ڈبلیو کی موجودہ چیئرپرسن نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ ’خواتین کے لیے ایک بڑی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ انہیں اکثر تعداد پورا کرنا کے لیے وفود میں شامل کیا جاتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے جانے والے انٹرویو میں مختلف صوبوں خصوصاً خیبر پختونخوا کی خواتین کی سیاست میں حصہ لینے اور مختلف شعبوں میں اپنا نام پیدا کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’خیبر پختونخوا کے شہری علاقوں میں رہنے والی خواتین کے مسائل مختلف ہیں اور ان کی بہت کم تعداد دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی خواتین ماضی کی نسبت بہت آگے ہیں لیکن اب بھی اس صوبے کے دیہات میں رہنے والی خواتین کو ایک لمبی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

نیلوفر بختیار نے بتایا کہ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے بعد وفاقی سطح پر این سی ایس ڈبلیو واحد ادارہ رہ گیا ہے جو خواتین کے لیے آواز اٹھا سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کا نقصان یہ ہوا کہ صوبائی وزارتیں اختیارات کی منتقلی کے لیے پوری تیار نہیں ہیں جبکہ خواتین مشینری نہایت کمزور ہے۔‘

’اگر خواتین مختلف عہدوں پر موجود بھی ہیں تو صرف نمائشی طور پر ہیں، ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں، ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ وہ ماتحت ہیں دوسرے محکموں کے۔‘

ان کے مطابق: ’آج جب میں دیکھتی ہوں کہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین سیاست میں آگئی ہیں، یہ میرے لیے بہت فخر کی بات ہے۔ خواتین بلدیاتی نظام سے اٹھ کر پارلیمنٹ تک پہنچ گئی ہیں۔ وزیر بن گئی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک درزن بھی آئیں اور انہوں نے کہا کہ باجی، آج کے بعد میں کپڑے نہیں سلوں گی۔ تو اتنی بڑی تبدیلی بھی میں نے دیکھی ہے۔‘

نیلوفر بختیار نے بتایا کہ پرانے زمانے میں ‘آٹھ مارچ’ کو جس طرح سے مناتی تھیں، آج کے زمانے کے حساب سے اس کا طریقہ بدل گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’احتجاج کا طریقہ بدلتا جارہا ہے۔ ہم بھی جب احتجاج کرتے تھے ایوانوں کے سامنے، ہمیں بھی تھانوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ ہم نے بھی بہت ماریں کھائی ہیں۔ پولیس کے ٹرکوں اور وینوں میں ہمیں لے کر گئے جب حدود آرڈیننس میں ترمیم کے لیے ہم کام کر رہے تھے۔ تو خواتین نے ہمیشہ سخت وقت تو دیکھا ہے لیکن وقت کے ساتھ احتجاج کے طریقے بدل گئے ہیں۔‘

بطور قومی کمیشن برائے وقار نسواں کے سربراہ کے نیلوفر بختیار نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت تمام پاکستان کے دورے کیے۔ اس دوران انہوں نے مختلف شہروں میں خواتین کے بڑے بڑے مجمعے اکھٹے کرکے ان کو ’بیدار‘ ہونے کی تلقین کی۔

جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے سوال کیا کہ پورے پاکستان کے دورے کرنے کے بعد انہیں کیا لگتا ہے کہ کس صوبے یا علاقے کہ خواتین کو ابھی مزید جدوجہد کرنے اور بیدار ہونے کی ضرورت ہےتو انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں خواتین کو ابھی بہت جدوجہد کی ضرورت ہے۔‘

ان کے مطابق: ’پنجاب اور سندھ بڑے صوبے ہیں۔ وہاں سے جو خواتین سیاست میں آئیں انہوں نے پارلیمان میں قیادت سنبھال لی ہے۔ جو میڈیا میں آئیں انہوں نے لیڈ لے لی ہے۔ اور وہ اتنے بڑے بڑے کام کررہی ہیں کہ وہ اب دیگر خواتین کے لیے مثال بن گئی ہیں اور ان کے پیچھے خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’بلوچستان اورخیبر پختونخوا سے جو خواتین آگے آئیں ان کے پیچھے ہم نے خواتین کی فالونگ اتنی نہیں دیکھی۔ عورت وہ لیڈر ہے جب وہ چلے تو اس کے پیچھے سو عورتیں آواز اٹھائیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ اگر ایک وفد کہیں جارہا ہو تو کہتے ہیں اچھا ایک عورت ڈال دو۔ یہ کمیٹی بن رہی ہے اس میں دو عورتیں رکھ دو۔ ہمیں یہ والی نمائندگی نہیں چاہیے۔ ہمیں تناسب پورا کرنے والی نمائندگی نہیں چاہیے۔ اگر ایک وفد جارہا ہے تو اس کی لیڈر خاتون ہونی چاہیے۔ اگر کمیٹی بن رہی ہے تو اس کی چیئرپرسن خاتون ہونی چاہیے۔ وزارتیں ملیں۔‘

نیلوفر بختیار نے کہا کہ آج شائد پاکستان کی کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو یہ دعوی کر سکے کہ میرٹ پر خواتین کو آگے لارہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مخصوص نشستیں اس لیے بنی تھیں کہ وہ خواتین آگے آسکیں جو سالہا سال سیاسی جدوجہد میں خواتین کا ساتھ دیتی ہیں لیکن جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو وہ غائب ہوجاتی ہیں۔

’یہ مخصوص نشستیں دراصل ان ہی خواتین کے لیے بنی تھیں۔ لیکن ہوا ایسا نہیں۔ اور کرائیٹریا چناؤ کا یہ بنا کہ مرد حضرات نے کہا کہ چوں کہ ہمارے ووٹوں کے تناسب پر یہ عورتیں آرہی ہیں اس لیے ان کے ناموں کا فیصلہ بھی ہم کریں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا