پاکستان کے ممتاز شاعر حبیب جالب کے بارے میں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام کے دوران ’توہین آمیز ریمارکس‘ دینے پر فیصل آباد کی ایک عدالت نے اینکر آفتاب اقبال کو طلب کر لیا۔
آفتاب اقبال کے خلاف یہ رٹ پٹیشن فیصل آباد کے رہائشی شہزاد جعفری نے سیشن کورٹ میں دائر کی۔
ایڈیشنل سیشن جج شہزاد احمد نے آفتاب اقبال کو14 مارچ کو عدالت طلب کیا ہے۔
زیر دفعہ 22A/22B ضابطہ فوجداری کے تحت دائر کی گئی رٹ پٹیشن کے مطابق ’سماء ٹی وی کے پروگرام کسوٹی کے میزبان آفتاب اقبال نے 23 جنوری کو اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے مرحوم حبیب جالب کے بارے میں ہرزہ سرائی کی جو ہتک عزت کے زمرے میں آتی ہے اور قانوناً جرم ہے۔‘
درخواست گزار کے مطابق آفتاب اقبال کی طرف سے ’قومی شاعر کا تمسخر اڑانا اور ان کی شہرت کو داغدار کرنا سنگین جرم ہے۔‘
رٹ پٹیشن کے مطابق پروگرام میں آفتاب اقبال نے کہا تھا کہ ’حبیب جالب تو شاعر ہی نہ تھے بلکہ وہ جلسوں کے شاعر تھے اور شہباز شریف اپنی تقریروں میں جس شاعر کے اشعار پڑھتے ہیں اس شاعر کی یہ ڈس کوالیفکیشن ہے کہ ان کے اشعار شہباز شریف پڑھیں۔‘
مدعی نے الزام عائد کیا کہ انہوں نے قانونی کارروائی کے لیے متعدد مرتبہ پولیس کو درخواست دی لیکن آفتاب اقبال کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
شہزاد جعفری کے وکیل محمد راشد سراج ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رٹ پٹیشن دائر کرنے سے پہلے انہوں نے اپنے موکل کی طرف سے پولیس کو آفتاب اقبال کے خلاف پی پی سی کی دفعہ 500 اور 504 کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی لیکن پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دفعہ اس وقت لگتی ہے جب کوئی شخص کسی بھی طریقے سے کسی کی بے عزتی کرنے کی کوشش کرے۔
’الفاظ کے ذریعے یا سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا کر، خاکہ بنا کر یا کوئی تقریر کسی بندے کی بے عزتی کا باعث بنتی ہے تو اس کے خلاف یہ دفعات لاگو ہوتی ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہتک عزت کے قانون میں ہر کسی کے خلاف درخواست تو نہیں دی جا سکتی لیکن جو شاعر، آرٹسٹ یا سیاست دان ہوتے ہیں وہ پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں۔
’اس حوالے سے اگر کسی کی بھی دل آزاری ہو تو وہ اس کی بنیاد پر پٹیشن کر سکتا ہے اور اس شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے جس نے کسی عوامی شخصیت کی توہین کی ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ تھانہ صدر میں مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دینے یا عدالت میں رٹ پٹیشن دائر کرنے سے پہلے انہوں نے یا ان کے موکل نے آفتاب اقبال کو کوئی قانونی نوٹس جاری نہیں کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ یہ عدالت نے طے کرنا ہے کہ حبیب جالب کے خلاف ’توہین آمیز‘ ریمارکس پر آفتاب اقبال کو کیا سزا دی جائے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بھی اس بارے میں ایکشن لینا چاہیے۔
واضح رہے کہ اس بارے میں حبیب جالب کی بیٹی طاہرہ جالب کی قیادت میں ان کے مداحوں نے تین فروری، 2022 کو آفتاب اقبال کے خلاف پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
علاوہ ازیں طاہرہ جالب اپنے والد حبیب جالب کے خلاف ہرزہ سرائی کے الزام میں آفتاب اقبال سے معافی مانگنے کا مطالبہ اور 10 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا چکی ہیں۔
ایڈوکیٹ لاہور ہائی کورٹ اشتیاق چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار فاطمہ علی کو بتایا کہ طاہرہ حبیب جالب نے آفتاب اقبال کے خلاف 10 کروڑ ہرجانے کے دعویٰ ہتک عزت آرڈینینس 2002 کے تحت کیا تھا۔
اس کیس کی 26 فروری کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج ثمینہ حیات نے سماعت کی تھی۔
سماعت کے بعد انہوں نے آفتاب اقبال کو 15 مارچ، 2022 کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر رکھا ہے۔