سندھ: احساس کفالت پروگرام کی رقم میں کٹوتی کی شکایات

احساس کفالت پروگرام سندھ کے اہلکار جہاں زیب خان نے تصدیق کی ہے کہ سندھ کی مختلف ڈویژنز سے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ احساس پروگرام مراکز پر بائیومیٹرک ڈیوائس آپریٹر دو ہزار روپے کاٹ لیتے ہیں۔

تھر کی خواتین کو مٹھی کے احساس کفالت مرکز کے سامنے  سڑک پر رقم کے انتظار میں بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے(تصویر: شادی پلی پریس کلب)

احساس کفالت پروگرام سندھ کے حکام کے مطابق سندھ میں کچھ عرصے سے احساس کفالت پروگرام کے سلسلے میں تقسیم کی جانے والی رقم مستحقین کو ملنے سے پہلے اس میں کٹوتی کی جانے کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

اسی حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر صارفین سندھ کے مختلف اضلاع میں مستحق خواتین کی مالی مدد کے لیے قائم وفاقی حکومت کے احساس کفالت پروگرام مراکز سے ویڈیو شیئر کررہے ہیں، جن میں مستحق خواتین کو بائیومیٹرک ڈیوائس آپریٹر کی جانب سے کٹوتی کی شکایات کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

مختلف ویڈیوز میں خواتین کو احساس کفالت مرکز سے رقم لینے کے بعد یہ شکایت کرتے دیکھا گیا کہ ان کو ایک سے دو ہزار روپے کم دیے گئے ہیں۔

جبکہ کچھ ویڈیوز میں تھر کی خواتین کو مٹھی کے احساس کفالت مرکز کے سامنے رات کو دیر سے سڑک پر رقم کے انتظار میں بیٹھے بھی دیکھا گیا۔

تھرپارکر ضلع کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کے شہر مٹھی میں مقامی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی اعجاز بجیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مٹھی شہر میں احساس کفالت کا ایک ہی مرکز ہے جہاں صحرائے تھر کے دور دراز کے علاقوں کی خواتین رقم لینے آتی ہے اور مرکز پر عملہ پورا نہ ہونے کے باعث انھیں کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’سندھ کے دیگر شہروں کی طرح مٹھی میں بھی احساس کفالت پروگرام کے مرکز پر بیٹھے بائیومیٹرک ڈیوائس آپریٹر ہر خاتون کی رقم سے 500 روپوں سے 1000 روپے کاٹ لیتے ہیں۔ ہم نے بار بار انتظامیہ سے جاننے کی کوشش کی کہ یہ کٹوتی کیوں کی جاتی ہے تو کوئی جواب نہیں ملتا۔‘

مٹھی کے احساس کفالت پر رقم لینے کے لیے ایک نواحی گاؤں سے آئی ہوئے خاتون رادھا میگھواڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مجھے کہا گیا تھا کہ اب قسط کی رقم 12 ہزار روپوں سے بڑھا کر 14 ہزار روپے کردی گئی ہے۔ مگر مجھے تو صرف 12 ہزار ہی ملے ہیں۔ عملے نے مجھے کہا کہ وہ دن رات محنت کرتے ہیں تو ان کا بھی کچھ حصہ بنتا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کم رقم ملنے کے بعد کیا انہوں نے کوئی شکایت درج کرائی، تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں معلوم کہ کس کو شکایت کرائی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’مجھے یہ رقم لینے کے لیے پوری رات مرکز کے سامنے انتظار کرنا پڑا۔ اب پیسے ملے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کون شکایت سنتا ہے۔‘

ٹنڈومحمد خان شہر کے احساس کفالت مرکز پر رقم کی وصولی کے لیے آئی ہوئی عاصمہ خاصخیلی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مرکز کے باہر سیکڑوں خواتین صبح سے انتظار کر رہی ہیں، مگر ان کی باری نہیں آ رہی۔‘

ان کے مطابق: ’ہم خواتین کے بیٹھنے کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔ شدید گرمی میں ہم کھلے آسمان تلے بیٹھی ہیں۔ کئی خواتین کے ساتھ شیرخوار بچے بھی ہیں۔ پینے کے لیے پانی بھی موجود نہیں۔ اور رقوم سے دو ہزار روپے کی کٹوتی کی جا رہی ہے۔‘

دوسری جانب احساس کفالت پروگرام انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے وفاقی محکمہ برائے سماجی بہبود اور غربت کا خاتمہ اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ترجمان کوباربار ٹیلی فون پر رابطہ کیا گیا اور ان کے واٹس ایپ پر سوالات بھیجے گئے مگر اس خبر کے فائل ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

 علاوہ ازیں احساس کفالت پروگرام سندھ کے ڈائریکٹر جنرل عبدالرحیم شیخ کے پرسنل اسسٹنٹ جہاں زیب خان نے تصدیق کی کہ ’سندھ کے مختلف ڈویژنز کے احساس پروگرام مراکز پر بایومیٹرک ڈیوائس آپریٹر کٹوتی کرتے ہیں اور محکمے کو اس سلسلے میں متعدد شکایات موصول ہو چکی ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے جہاں زیب خان نے بتایا: ’محکمے کو سندھ کی مختلف ڈویژنز کے مختلف اضلاع میں واقع احساس کفالت پروگرام مراکز پر رقوم لینے والی خواتین کی جانب سے شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں کہ بائیومیٹرک ڈیوائس آپریٹر ان کی رقم کی قسط سے ایک سے دو ہزار روپے کی کٹوتی کر رہے ہیں۔‘

’جب بھی کوئی متاثرہ خاتون ہمیں لکھ کر ایسی شکایت کرتی ہیں اور ساتھ میں یہ ثبوت بھی پیش کرتی ہیں کہ کہ بائیومیٹرک ڈیوائس آپریٹر نے ان کی رقم کی قسط سے کٹوتی کہ ہے تو ہمارے محکمے کے ڈویژن افسران ان شکایات پر تحقیق کرتے ہیں اور ثابت ہونے پر اس بائیومیٹرک ڈیوائس آپریٹر کی مشین کو بلاک کردیا جاتا ہے تاکہ وہ آئندہ ہمارے مراکز پر کام نہ کرسکیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ احساس پروگرام مراکز پر آنے والی خواتین کو شکایت ہے کہ مرکز پر کم لوگ کام کرتے ہیں، جس کے باعث انہیں رقوم کی وصولی کے لیے کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے اور مراکز پر بیٹھنے کی مناسب جگہ اور سایہ بھی نہیں ہوتا۔

اس پر جہاں زیب خان نے کہا: ’احساس پروگرام مراکز کے انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آنے والی خواتین کے بیٹھنے کے لیے بندوبست کریں۔ اور یہ بندوبست ہوتا بھی ہے، مگر خواتین کی زیادہ تعداد آنے کے باعث رش تو ہوتا ہے۔‘

جب احساس کفالت پروگرام حیدرآباد ڈویژن کے سربراہ منیر میمن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی ڈویژن میں کسی بھی مرکز پر کوئی بھی کٹوتی نہیں کی جاتی۔‘

جب انہیں بتایا گیا کہ ٹنڈو محمد خان کے مرکز پر آئی ہوئی ایک خاتون نے کٹوتی کی شکایت کی ہے تو انہوں نے کہا: ’میں اس وقت ٹنڈو محمد خان کے مرکز پر آیا ہوں یہاں کسی نے کوئی شکایات نہیں کی۔ کوئی بھی خاتون شکایات کے ساتھ ثبوت پیش کریں کہ ان کی رقم سے کٹوتی کی گئی ہے تو ہم کارروائی کریں گے۔‘

دوسری جانب نوشہروفیروز کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) کمپلینٹ سیل علی اکبر حبیبانی نے بتایا کہ انھیں خواتین کی جانب سے شکایات موصول ہوئی ہیں احساس کفالت مرکز پر کٹوتی کی جارہی ہے۔

ان کے مطابق: ’اس لیے میں خود مرکز پر آیا ہوں اور بائیومیٹرک ڈیوائس آپریٹر کو تنبیہ کی ہے کہ اگر انہوں کوئی کٹوتی کی تو ان پر ایف آئی آر درج کی جائے گی۔‘

واضح رہے کہ سال 2008 میں اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے پاکستان بھر کی مستحق خواتین کی مالی امداد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا تھا اور اس پروگرام کے تحت ملک بھر 54 لاکھ لوگوں کو ماہانہ تقریباً پانچ ہزار روپے ادا کیے جاتے تھے۔

اس پروگرام کو مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں بھی جاری رکھا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اس پروگرام کا نام تبدیل کرکے احساس کفالت پروگرام کردیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت مستحق خواتین کو ملنے والی رقم پانچ ہزار سے بڑھا کر پہلے 12 ہزار اور کچھ عرصہ قبل وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 14 ہزار کردی تھی۔ 

اس وقت پاکستان بھر ایک کروڑ 48 لاکھ خواتین کو اس پروگرام کے تحت رقوم دی جا رہی ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان