کوئٹہ: تھانے میں بچے پر تشدد کی ویڈیو پر اہلکاروں کے خلاف کارروائی

جمعے کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وردی میں ملبوس ایک پولیس اہلکار کمسن بچے کو بالوں سے پکڑ کر تھپڑ مار رہا ہے اور اس سے کسی موبائل کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق بچے پر تشدد کا یہ واقعہ چار جولائی 2021 کا ہے (سکرین گریب)

کوئٹہ سے سوشل میڈیا پر ایک بچے پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد قائم مقام ڈی آئی جی پولیس غلام اظفر مہسر اور ایس ایس پی آپریشن عبدالحق عمرانی نے کہا ہے کہ بچے پر تشدد کرنے والے اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی آفس میں جمعے کی شام ایک پریس کانفرنس میں پولیس حکام نے بتایا کہ بچے پر تشدد کا واقعہ چار جولائی 2021 کو پیش آیا تھا جب بچے کو چوری کے الزام میں ایگل سکواڈ نے گرفتار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تشدد کرنے والے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جائے گا۔

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ جس تھانے میں بچے پر تشدد کیا گیا اسی تھانے میں اہلکاروں کو گرفتار کر کے رکھا گیا ہے۔

واضح رہے کہ جمعے کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وردی میں ملبوس ایک پولیس اہلکار کمسن بچے کو بالوں سے پکڑ کر تھپڑ مار رہا ہے اور اس سے کسی موبائل کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد ایک دوسرا شخص بھی آکر بچے سے پوچھ گچھ کے ساتھ تشدد شروع کر دیتا ہے۔

وائرل ویڈیو میں ہونے والی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی موبائل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ ویڈیو کے وائرل ہونے پر شہریوں نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے کارروائی کا مطالبہ کیا۔

جس پر آئی جی پولیس بلوچستان محسن حسن بٹ نے نوٹس لے کر اہلکاروں کو معطل کر دیا۔

واقعہ کے حوالے سے ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس سید فداحسین شاہ کو تحقیقات کی ہدایت کی گئی ہے۔ رابطہ کرنے پر ڈی آئی جی فدا حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ویڈیو 2021 کی ہے۔ اس کے حوالے سے ایس ایس پی اظفر مہسر تحقیقات کر رہے ہیں۔ 

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے بھی بچے پر پولیس تھانہ میں تشدد کی ویڈیو کا نوٹس لے کر آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے تشدد کرنے والے اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا اور کہا کہ پولیس کو کسی بھی ملزم پر تشدد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔  ایسے رویے سے پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا ہوتے ہیں۔

ایس ایس پی اظفر نے بتایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے اہلکاروں کا تعلق کوئٹہ کے پشتون آباد تھانے سے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچوں کے حقوق کے حوالے سے جدوجہد کرنے والے سماجی کارکن بہرام لہڑی اس واقعے پر کہتے ہیں کہ بچے پر تشدد میں ملوث اہلکاروں کو معطل کرنا کافی نہیں ہے۔

بہرام لہڑی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچے پر تشدد کرنے کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اہلکاروں کی ملازمت ختم کر کے ان کی حکومت سے وصول کرنے والی تنخواہیں بھی واپس لے کر ان پر جرمانہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس بچے پر تشدد کی ویڈیو سے بچوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ جوائنل جسٹس ایکٹ 2018 میں بھی بچوں پر تشدد اور ہتھکڑی لگانے سے منع کر کے انہیں تھانے میں رکھا بھی نہیں جا سکتا ہے۔

بہرام لہڑی نے بتایا کہ قوانین بچوں کے حوالے سے موجود ہیں۔ ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے لیکن بلوچستان میں ابھی تک اس کے رولز آف بزنس پر کام باقی ہے۔

ادھر ماہر قانون عبدالحئی ایڈووکیٹ جو چائلڈ رائٹس کے ماہر بھی ہیں کہتے ہیں کہ 2018 میں بچوں کے حوالے سے جو قانونی بنا اس میں بچوں کو ریمانڈ پر نہیں دیا جاسکتا ہے۔

عبدالحئی ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں نے اس حوالے سے پٹیشن بھی دائر کی ہے کہ جو چائلڈ رائٹس 2018 کا قانون ہے اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔‘

’اس قانون کے مطابق بچوں کو تھانے میں نہیں رکھا جاسکتا، بلکہ ایک آبزرویشن ہوم میں رکھا جائے، جو بلوچستان میں موجود نہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے الگ سے عدالت بنائی جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم اس قانون پر عمل درآمد کے لیے عدالت سے رجوع کر چکے ہیں تاکہ عدالت کے ذریعے حکومت سے کہا جائے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرے۔‘

نوٹ: مذکورہ ویڈیو پر مبنی ٹویٹس بچے پر تشدد کے مناظر کے باعث اس خبر میں شامل نہیں کی گئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان