تحریک عدم اعتماد: قومی اسمبلی کے اجلاس میں كون كون تھا؟

سپیكر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں واضح كیا كہ وزیر اعظم عمران خان كے خلاف پیش كی گئی تحریک عدم اعتماد كو آئین اور قواعد كے مطابق ہینڈل كیا جائے گا۔

 جمعہ 25 مارچ 2022 کو پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں منعقد ہوا (سکرین گریب پی ٹی وی)

قومی اسمبلی كا جمعے كو ہونے والا اجلاس بہت ہی مختصر ثابت ہوا۔ دن گیارہ بجے كی بجائے 11:20 پر شروع ہونے والا اجلاس محض پندرہ منٹ تک جاری رہا، جس میں تلاوت قرآن پاك، آیات كا ترجمہ، حمد و ثنا اور قومی ترانے كا وقت بھی شامل تھا۔

قومی ترانہ ختم ہونے كے ساتھ ہی حكومتی نشستوں سے 'وزیر اعظم عمران خان زندہ باد' كے نعرے لگائے گئے۔

قومی اسمبلی میں موجود نامہ نگار عبداللہ جان کے مطابق سپیكر اسد قیصر نے وقت ضائع كیے بغیر فاتحہ خوانی كا عمل شروع كیا اور وفاقی وزیر نور الحق قادری كو مرحومین كے لیے دعائے مغفرت پڑھنے كو كہا۔

سپیكر اسد قیصر نے دعا كے اختتام كے فوراً بعد اجلاس ملتوی كرنے كا اعلان پڑھنا شروع كر دیا، تاہم اس سے قبل واضح كیا كہ وزیر اعظم عمران خان كے خلاف پیش كی گئی تحریک عدم اعتماد كو آئین اور قواعد كے مطابق ہینڈل كیا جائے گا۔

اس دوران حزب اختلاف کے اراكین نے اپنی نشستوں میں كھڑے ہو كر اجلاس ملتوی كرنے كی مخالفت كی۔

اگرچہ وزیر اعظم عمران خان كے خلاف اپوزیشن كی طرف سے پیش كی گئی تحریك عدم اعتماد جمعے كی كارروائی كے ایجنڈے میں موجود تھی، تاہم سپیكر نے كہا: 'ہاؤس كی روایات كے مطابق وفات پانے والے ایم این اے اور دوسرے مرحومین كے لیے فاتحہ خوانی كے بعد كارروائی پیر تك ملتوی كی جاتی ہے۔‘

سپیكر كے اعلان كے دوران ہی كثیر تعداد میں موجود حزب اختلاف كے اراكین كی بڑی تعداد نے نشستوں میں كھڑے ہو كر بولنا شروع كر دیا، لیكن سپیكر اسد قیصر  نوٹس لیے بغیر اجلاس ملتوی كرنے كا اعلان پڑھتے رہے۔

پاكستان مسلم لیگ نواز كے رہنم اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اجلاس شروع ہونے سے پہلے میڈیا سے گفتگو میں كہا تھا كہ اگر اجلاس كم عرصے كے لیے ملتوی كیا جاتا ہے تو حزب اختلاف كو كوئی زیادہ اعتراض نہیں ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اجلاس میں كون كون تھا؟

اجلاس كے دوران ایوان میں حزب اختلاف كی نشستیں كھچا كھچ بھری ہوئی تھیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اپوزیشن کے پارلیمانی پارٹی كے اجلاس میں بھی 159 ارکان قومی اسمبلی نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کے جام عبد الکریم ملک سے باہر ہونے كے باعث جمعے كے اجلاس میں نہ آ سکے، جبکہ آزاد رکن قومی اسمبلی علی وزیر پابند سلاسل ہیں۔

حزب اختلاف كی تمام جماعتوں سے تعلق ركھنے والے اراكین قومی اسمبلی ایوان میں موجود تھے۔  

حکومتی جماعت پاكستان تحریك انصاف سے تعلق رکھنے والے 13 منحرف اراكین میں سے صرف احمد حسین دیہڑ ایوان میں نظر آئے۔

اجلاس كے بعد حزب اختلاف كے ایك ركن اسمبلی نے انڈپینڈنٹ اردو كو بتایا كہ منحرف اراكین كو سٹریٹجی كے تحت ایوان سے دور ركھا گیا۔ ’ہمیں معلوم تھا كہ سپیكر آج كوئی كارروائی نہیں كریں گے، تو كیوں ان اراكین كو سامنے لاتے۔‘

وفاقی وزرا میں سے تقریبا ایك درجن نے اجلاس میں شركت كی، جن میں وزیر خارجہ شاہ محمود وریشی، شبلی فراز، اسد عمر، عبدالرزاق داود، نور الحق قادری، شیرین مزاری، اعجاز شاہ شامل تھے۔

حکومتی اتحادیوں میں سے پاكستان مسلم لیگ ق کا کوئی بھی رکن جمعے كے اجلاس میں موجود نہیں تھا، جبكہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم كیو ایم) سے تعلق ركھنے والے وفاقی وزیر امین الحق ایوان میں موجود پائے گئے۔

اسی طرح گرینڈ ڈیموكریٹك الاءنس (جی ڈی اے) كی فہمیدہ مرزا نے اجلاس میں شركت كی۔  

جماعت اسلامی كے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی اپوزیشن كی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، تاہم ایوان میں پہنچنے والے پہلے اراكین میں شامل تھے۔  

جماعت اسلامی حزب اختلاف كے ساتھ تحریك انصاف حكومت كے خلاف احتجاج میں حصہ ڈال رہی ہے تاہم وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریك عدم اعتماد پر ان كی واضح پالیسی سامنے نہیں آ رہی ہے۔

اسد قیصر نے ماضی میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی قومی اسمبلی کے اجلاس ممبران کے انتقال پر ملتوی ہوتے رہے ہیں لہذا روایت کے مطابق اس بار بھی اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا:  ’میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ضرور کراؤں گا۔‘

اس کے بعد اجلاس پیر 28 مارچ 2022 تک ملتوی کر دیا گیا۔

اس اجلاس کے 15 نکاتی ایجنڈے میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی شامل تھی جس پر کارروائی نہیں کی گئی۔

---------------

’وزیراعظم استعفی نہیں دیں گے‘

 اطلاعات و نشریات کے وزیر مملکت فرخ حبیب نے بعد میں کہا ہے کہ اتحادی جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں اور وہ قومی مفادات، پالیسیوں کے تسلسل اور مضبوط معیشت کے لیے حکومت کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

 اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نہ تو استعفیٰ دیں گے نہ ہی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کریں گے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ پوری قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے اور اتوار کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں بڑی تعداد میں شرکت کرے گی۔

اجلاس ختم ہونے پر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین نے تھوڑا بہت احتجاج کیا۔ بلاول، راجہ پرویز اشرف، شہباز شریف اپنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور مائک کھولنے کی درخواست کی جو نہیں سنی گئی۔ اس معاملے کی تفصیل شہباز شریف نے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتائی۔

---------------

شہباز شریف سپیکر سے ناراض

قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ روایات اپنی جگہ مگر آج سپیکر کو قانون کی پاسداری کرنی چاہیے تھی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’او آئی سی کے اجلاس کی وجہ سے دھرنے اور لانگ مارچ ملتوی کیے گئے۔ سپیکر نے عمران نیازی کے ساتھ مل کر سازش کی اور آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ سپیکر نے بات کرنے دینا تو دور دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ میں نے بہت مرتبہ کہا کہ میرا مائیک کھولیں مگر وہ اٹھ کر چلے گئے۔ ان کا کردار تاریخ میں سیاہ الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ سپیکر کو چاہیے تھا کہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے اور اس پر  لیوو گرانٹ کرنے کے لیے ووٹنگ کراتے۔ انہوں نے ایک نہیں سنی اور چلے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سپیکر نے پاکستان اور پارلیمان کی تاریخ میں گھناؤنا کردار ادا کیا ہے جسے قوم ہمیشہ برے الفاظ میں یاد رکھے گی۔ یہ دھاندلی اور دھونس کے ذریعے آئین اور قانون کو مجروح کریں، اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پیر کے روز اگر سپیکر نے دوبارہ غیر آئینی و غیر سیاسی حربہ استعمال کیا تو ہم جواباً ہر قانونی، آئینی اور سیاسی حربہ استعمال کریں گے۔ پیر کو اگر حکومت دھاندلی کی مرتکب ہوئی تو دما دم مست قلندر ہو گا۔ سپیکر نے قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں۔‘

اجلاس کے بعد وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ کسی ایم این کی وفات کی صورت میں سیشن کے پہلے روز اجلاس فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کر دینا پاکستان کی پارلیمانی روایات کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں شائستہ زبان کا قائل ہوں، شہباز شریف کے سپیکر کے خلاف استعمال کیے گئے الفاظ بطور قائد حزب اختلاف ان کے شایان شان نہیں ہیں۔ سپیکر کی ذمہ داری ہے وہ آئین، قوانین اور ضابطے کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اگر ان کا یہ خیال ہے کہ ہم عدم اعتماد کی تحریک سے بھاگ جائیں گے تو نہیں۔ یہ غلط فہمی ہے۔ ہم اس کا جمہوری، سیاسی اور آئینی طریقے سے مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپوزیشن کو پہلا سرپرائز آج ملا ہے، دوسرا 27 کو ملے گا۔‘

---------------

’اپوزیشن کے اراکین کی تعداد 172‘

مسلم لیگ ن کے رہنما اور رکن اسمبلی رانا ثنا اللہ نے سپریم کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ان کے 159 اراکین آج پارلیمانی جماعت کے اجلاس میں موجود تھے۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی کے ایک رکن دبئی میں عدالتی مقدمے کی وجہ سے ہیں جنہیں واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رکن اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر کے لیے سپیکر کو کہا گیا ہے۔ ’ریزرو میں ہم نے باقی بندے رکھے ہوئے ہیں, حکومت کو اب ادراک ہو چکا ہے۔ کل جو منہ ٹھرا کر کہتے تھے ہمارا رابطہ ہے تو اب بتائیں کس سے رابطہ ہے۔ آج ہمارے نمبر 172 سے زائد ہیں اس کی خبر حکومت کو ہوچکی ہوگی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی جس کے سات دن کے اندر اس پر ووٹنگ ہوجائے گی۔

---------------

بلاول بھٹو زرداری

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم عمران خان مقابلے سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ کیسے کپتان ہیں جو پچ چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ سپیکر مقابلے سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ آج کا بہانہ فاتحہ پڑھنا تھا۔ جون 2012 میں جب وزیر اعظم کا چناؤ ہوا تو فوزیہ وہاب کی وفات ہوئی تھی تو فاتحہ پڑھنے کے بعد آئینی ذمہ داریاں پوری کی گئی تھیں اور وزیر اعظم کا چناؤ کیا گیا تھا۔‘

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’سپیکر عمران خان کے سہولت کار بن کے نہ صرف آج بھاگے بلکہ جب صرف 14 دن میں سیشن بلانا چاہیے تھا تو تب بھی بھاگے بلکہ جب تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تو ان کا خوف سامنے آیا انہوں نے پارلیمنٹ لاجز اور سندھ ہاؤس پر حملہ کرکے دہشت پھیلانے کی کوشش کی۔ ہم عمران کو نہیں بھاگنے دیں گے۔‘

---------------

اراکین پارلیمان پہنچنا شروع

قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اراکین اسمبلی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی جمعے کی صبح پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے جہاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہمیں پوری امید ہے کہ آج سپیکر صاحب ہاؤس کو ملتوی کردیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ایوان کی روایت ہے کہ اگر کوئی رکن فوت ہو جائے تو اجلاس اگلے دن کے لیے ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ اگر کل تک اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر اجلاس  لمبے عرصے ملتوی کیا جاتا ہے تو مسئلہ ہوگا۔‘

مسلم لیگ ن سے ہی تعلق رکھنے والے سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی قومی اسمبلی آمد کے موقع پر صحافیوں کو بتایا: ’یہ بھی روایت ہے کہ جب کوئی قومی اہمیت کا معاملہ ہو تو اجلاس چلایا بھی گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج ہمارا حق ہے تو وہ ضرور کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں سپیکر قومی اسمبلی زیادہ دیر تک اجلاس ملتوی نہیں کریں گے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر خواجہ محمد آصف نے اپنے ایک ٹوئٹ میں تحریک عدم اعتماد میں ووٹوں کی گنتی کا حساب لگایا ہے جو کہ قومی اسمبلی کے نوٹ پیڈ پر ہاتھ لکھا گیا ہے۔

 

---------------

متحدہ اپوزیشن کا اجلاس 

انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے عبداللہ جان کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی سربراہی میں متحدہ اپوزیشن کا اجلاس بھی جاری ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، ان کے والد اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری، جمیعت علمائے اسلام ف کے ممبر قومی اسمبلی مولانا اسد محمود، بلوچستان نیشنل پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی سردار اختر مینگل اور عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر امیر حیدر خان ہوتی سمیت 140 سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی شریک ہیں۔ 

اس اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر مشاورت مکمل کی جارہی ہے۔

متحدہ اپوزیشن کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاوک بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’ہمارے نمبرز پورے ہیں اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی۔‘
اس سے قبل آصف علی زرداری بھی میڈیا کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ ’اگر مولا نے چاہا تو تحریک ضرور کامیاب ہوگی۔‘

---------------

قومی اسمبلی کا اجلاس: 15 نکاتی ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد شامل

پاکستان کے ایوان زیرین یعنی قومی اسمبلی کے جمعے کو ہونے والے اجلاس کا ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے جس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد بھی شامل ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیرِصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس آج صبح 11 بجے شروع ہوگا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے 15 نکاتی ایجنڈے میں اپوزیشن کے 147 ارکان کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو شامل کیا گیا ہے۔ لیکن سپیکر کی اجازت ملنے پر 152 ارکان وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کریں گے۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپنے اپنے اراکین پارلیمنٹ کو اپنی حاضری کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

لیکن یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے آج کا اجلاس روایتی طور پر فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کر دیا جائے گا۔ حکمراں جماعت کے رکن قومی اسمبلی خیال زمان گذشتہ ماہ انتقال کر گئے تھے جن کی فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ البتہ اجلاس ملتوی کرنا قانون نہیں ہے لہذا آج کارروائی ایجنڈے کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے جاری بھی رکھی جا سکتی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کا اعلان

حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان 11 فروری کو کیا تھا۔

اس کا اعلان مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم کے ایک اجلاس کے بعد شہباز شریف، مریم نواز اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا: ’اس حوالے سے ایک وفد تشکیل دیا گیا ہے جو اتحادی جماعتوں سے رابطے کرے گا جبکہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے حکومتی اتحادیوں سے بھی رابطے کیے جائیں گے۔‘

اس کے بعد سے اب تک مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے تو کیے گئے لیکن کسی جماعت نے حکومت یا اپوزیشن کی کھل کر حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے البتہ اشاروں کنایوں میں جھکاؤ ظاہر کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں پیپلز پارٹی نے کراچی سے اسلام آباد تک کا لانگ مارچ بھی کیا تھا جس کا راستے میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف نے استقبال بھی کیا تھا۔

پارلیمان میں جماعتوں کی صورت حال کیا ہے؟

پارلیمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو 176 ارکین کی حمایت حاصل ہے جن میں پی ٹی آئی کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے سات، ق لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ، پانچ جب کہ جی ڈی اے کے تین اور اے ایم ایل کا ایک رکن شامل ہیں۔

حکومتی الحاق میں جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن اور دو آزاد اراکین بھی شامل ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپوزیشن کو 162 ارکین کی حمایت حاصل ہے جن میں ن لیگ کے 84، پیپلز پارٹی کے56، ایم ایم اے کے 15، بی این پی کے چار، اے این پی ایک اور دو آزاد اراکین شامل ہیں۔

پارٹی پوزیشن کے مطابق اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے 10حکومتی یا حکومت کے اتحادی اراکین کی حمایت درکار ہے۔

اسلام آباد کی صورت حال

اسلام آباد کی مرکزی شاہراہوں اسلام آباد ایکسپریس وے اور سری نگر ہائی وے پر مختلف مقامات پر تحریک انصاف کے پوسٹرز لگ رہے ہیں جن پر پی ٹی آئی پلس ون برابر عمران خان لکھا ہوا ہے۔

واضح رہے گذشتہ چند دنوں سے مائنس ون جیسی اصطلاح اقتدار کے ایوانوں میں گونج رہی تھی جس کا مطلب ہے کہ اگر عمران خان کو مائنس کر دیا جائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لی جا سکتی ہے یا مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

ایسی صورت حال میں ایسے پوسٹر لگائے جانے سے واضح ہے کہ حکمراں جماعت عمران خان کے علاوہ کسی کو وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتی۔

گذشتہ روز پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے قوم پر زور دیا تھا کہ وہ 27 مارچ کو حکومت اور ان کی حمایت میں نکلیں۔ 27 مارچ کو پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں عوامی جلسہ بلا رکھا ہے۔

پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ایک ٹوئٹ میں کراچی سے روانہ ہونے والے ایک قافلے کی ویڈیو شیئر کی گئی جو 27 مارچ کو اسلام آباد میں حکمراں جماعت کے جلسے میں شریک ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے پوری قوم سے کہا ہے کہ وہ ’بدعنوان عناصر‘ کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور عوامی اجتماع میں شرکت کرے جو اتوار کو اسلام آباد کے پریڈ گراونڈ میں ہوگا۔

انہوں نے نشاندہی کہ ایک مخصوص گروپ نے گذشتہ 30 برس کے دوران اس قوم کو لوٹا اور لوٹ مار کی اور اب وہ اس رقم کو عوامی نمائندوں کے ضمیر خریدنے پر استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا یہ انتہائی اقدام جمہوریت اور قوم کے خلاف ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان