’تحریک عدم اعتماد پر ڈالے گئے ووٹ شمار نہ کرنا توہین آمیز ہے‘

پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ رکن قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں وزیر اعظم کے خلاف ڈالے گئے ووٹ کو شمار نہ کرنا توہین آمیز عمل ہو سکتا ہے۔

صدارتی ریفرنس پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کو سماعت کی (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ رکن قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں وزیر اعظم کے خلاف ڈالے گئے ووٹ کو شمار نہ کرنا توہین آمیز عمل ہو سکتا ہے۔

تاہم انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک منحرف رکن قومی اسمبلی کب تک نا اہل رہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ ریمارکس آئین کے آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ سے رائے طلب کرنے والے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران دیے۔

صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کو سماعت کی۔

سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وکیل کامران مرتضیٰ کے علاوہ صوبہ سندھ اور اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس، وفاقی سیکریٹری داخلہ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر موجود تھے۔

سپریم کورٹ میں ہونے والی اس سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ایم این اے کے ووٹ کو ڈی سیٹ کرنے سے قبل کی گئی کارروائی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ 18ویں ترمیم میں ووٹ نہ گننے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

اس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے اراکین پارٹی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک موقع پر کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ خالی جگہوں کو پُر کرنا عدالت کا کام نہیں، ایسے معاملات کو ریفرنس کے ذریعے حل کرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں ہی حل ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کو نیشنل اسمبلی میں کورم اور ووٹنگ سے متعلق آرٹیکل 55 کو بھی دیکھنا ہے۔

بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی پالیسیوں سے انحراف کو روکنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پارٹی کی اجتماعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے اجتماعی رائے اہم ہے۔‘

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 63 اے کی ایک تشریح یہ ہے کہ منحرف اراکین قومی اسمبلی کے ووٹ شمار نہ کیے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین نے پارلیمانی پارٹی کو اختیار دیا، پارٹی کے سربراہ کو نہیں۔

اس دوران جسٹس عالم نے کہا کہ کسی کو بھی ووٹ ڈالنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

جبکہ جسٹس مندوخیل نے یاد دلایا کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لائے تھے۔

جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ دونوں مخالف گروپ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانا ضمیر کی آواز نہیں ہے۔ اگر (متضاد ایم این اے) اتنے ہی باضمیر ہیں تو وہ استعفیٰ دے سکتے ہیں۔‘

جسٹس مندوخیل نے پھر سوال کیا کہ اگر کوئی ایم این اے یہ کہتے ہوئے استعفی دے دے کہ رکن اسمبلی کا پارٹی کے علاوہ بھی ووٹ ہے۔

اس دوران چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایک ایم این اے کو کتنے عرصے کے لیے نااہل کیا جا سکتا ہے اور یہ عمل کب شروع ہوا؟

انہوں نے اٹارنی جنرل سے اس بات پر بحث کرنے کو بھی کہا کہ پارلیمنٹ ہر معاملے کو خود کیوں طے نہیں کر سکتی۔

جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اگر ہر ایم این اے اپنے طور پر کام کرے تو نظام نہیں چل سکتا۔‘

جسٹس منیر عالم نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے چار بہت واضح ہے اور کسی پارٹی رکن کی منسوخی نااہلی کے مترادف ہو گی۔

اٹارنی جنرل نے اس موقع پر دلیل دیتے ہوئے کہا کہ 63 اے چار کو واضح کرنا ہی اصل مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جو شخص منحرف ہو کر آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ ہم وہ نہیں پڑھ سکتے جو آئین میں لکھا نہیں ہے۔ آرٹیکل 62(1)(f) کہتا ہے کہ ایک ایم این اے ایماندار اور صادق ہونا چاہیے۔‘

قبل ازیں سماعت کے دوران، چیف جسٹس نے صوبوں کو صدارتی ریفرنس کے حوالے سے اپنے جوابات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تحریری جواب داخل ہونے کے بعد کارروائی کرنا ’آسان‘ ہوگا۔

اس سے قبل سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد پر قائم ہیں اور عدالت ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کی آبزرویشن دے چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں واضح طور پر لکھا تھا کہ مسلم لیگ بطور جماعت کام نہ کرتی تو پاکستان نہ بن پاتا، اور مسلم لیگ کے کامیاب ہونے والے اراکین آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیتے تو بھی پاکستان کا وجود عمل میں نہ آتا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 17 اور 18 عام شہری کو آزادانہ ووٹ کے استعمال کا حق دیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ عام شہری اور رکن اسمبلی کے ووٹ میں فرق بتانا چا رہے ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ یہ معاملہ سینیٹ الیکشن ریفرنس میں بھی سامنے آ چکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عام شہری اور اراکین اسمبلی کے ووٹ کے لیے قوانین الگ الگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں موجود حکومتی اراکین قومی اسمبلی نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

انہوں نے 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ضمیر تنگ کر رہا ہے تو مستعفی ہو جائیں۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 1992 کے بعد سے ملک میں بہت کچھ ہو چکا ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ بہت کچھ ہوا لیکن اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 63A  کے تحت اراکین قومی اسمبلی پارٹی ہدایات کے پابند ہیں، جبکہ وزیر اعظم کے انتخاب اور عدم اعتماد کی صورت میں اراکین پارٹی پالیسی پر ہی چلنے کے پابند ہیں۔

جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا آرٹیکل 63A  میں نااہلی کا ذکر موجود ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ آرٹیکل 63A  کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، آئین کے آرٹیکلز 62-63-63A  کو الگ الگ نہیں پڑھا جاسکتا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 17(2) سے متعلق سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ انفرادی ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کے دلائل کو سمجھ رہے ہیں، یہ سب بہت اہمیت کا حامل ہے، آرٹیکل 63 اے نے انحراف پر ایک طریقہ کار وضع کر دیا ہے، اس کے دو طرح کے نتائج ہو سکتے ہیں، اس معاملے کے ایک آئینی اور دوسرا قانونی نتائج ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر ووٹ جماعت کا نہ ہو تو جہموری عمل تو زمین بوس ہو جائے گا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو شخص کسی جماعت سے جیت کر آئے وہ اپنے حلقے کی آواز ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ووٹ رکن پارلیمنٹ کا حق ہے، سیاسی جماعت کا نہیں۔ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ممبران پارلیمنٹ پارٹی لائن سے باہر ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں اداروں کی مانند ہیں اور ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں۔
’پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔‘
خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ 1985 میں غیرجماعتی بنیاد پر الیکشن ہوئے تھے، محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بننے کے لیے پارٹی صدر بننا پڑا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثر تو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا جبکہ آئینی نقطہ یہ ہے کہ نااہل ہو جائے گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا: ’کیا اراکین پارٹی کے ساتھ (اراکین) اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں؟ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے؟‘
خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے، مستعفی ہو کر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا، ’کٹ لیتے وقت امیدوار کو پتہ ہوتا ہے وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے۔‘ 
دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان نے کہا: ’دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اگر ایک رکن اپنی جماعت کے غلط اقدام پر جماعت چھوڑے تو کیا ہوسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر چھوڑنا چاہے تو دو لفظ لکھ کر دے دیں کہ وہ استعفیٰ دے رہے ہیں’۔ یہ ایک کشتی کو ڈبو کر دوسرے پر بیٹھ رہے ہیں۔‘

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا اس کا مطلب ہے کہ جماعت سے انحراف کے نتائج بھگتنا ہوں گے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے لیے نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا، موجودہ حکومت کی بہت کم اکثریت ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سوال یہ کہ کتنے عرصے کے لیے منحرف رکن کو ڈی سیٹ کیا جائے، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا: ’کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک کشتی سے اتر کے دوسری میں بیٹھ رہے ہیں؟‘
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا: ’اراکین کو پارٹی مینڈیٹ کے مطابق ووٹ دینا ہوتا ہے، اراکین کو پارٹی لائن پر عمل کرنا ہوتا ہے، فل اسٹاپ، دیٹس اٹ، پارٹی لائن تبدیل کرنے پر گڈ بوائے بیڈ بوائے نہیں کہا جاتا۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے ابھرتے ہوئے سیاسی سسٹم کا ایک ڈسپلن ہے، 63 اے کہتا ہے کہ بیشک اراکین اپنی جماعت سے ناخوش ہوں مگر جماعت کے ساتھ کھڑے ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 63 اے یا آرٹیکل 95 کی بیناد پر سارا سیاسی سسٹم کھڑا ہے، 63 اے یا آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی تو سارا سیاسی سسٹم ہل جائے گا۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ پارٹی رائے انفرادی رائے پر ووٹ کے وقت حاوی ہوتی ہے، انحراف کا قانون پہلے دن سے موجود ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے۔ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا اگر دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جا سکتی ہے۔
جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ زیادہ تر جہموری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں۔’کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جا سکتا ہے؟‘
جسٹس منیب نے ریمارکس دیے: ’چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہو سکتی۔‘ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا: ’اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہے گی۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں بلکہ پورے سسٹم کے ناکام ہونے کا ہے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فلور کراسنگ کی باقی جمہوری حکومتوں میں اجازت ہے یا نہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا: ’باقی ملکوں میں کرسمس سے پہلے قیمتیں کم ہوتی ہیں، ہمارے ہاں رمضان میں ڈبل ہوجاتی ہیں۔‘¬
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا: ’کیا آپ پارٹی لیڈر کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں؟‘ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا، ’پارٹی لیڈر کو بادشاہ نہیں پر لوٹا بھی نہیں بننا چاہیے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی کے اندر کھلی بحث کروا لیں، جس پر خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ کیا بحث کرائیں کہ سندھ ہاؤس میں یہ بول لیتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 63 اے میں واضح ہے کہ اس کا اطلاق سپیکر یا چیئرمین پر نہیں ہوتا۔ ’جو شخص ابھی بھی سیٹ پر موجود ہے کیا اس کا ووٹ کاؤنٹ ہو گا؟‘

اسلام آباد میں جلسے اور دھرنا

اٹارنے جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جمیعت علما اسلام فضل الرحمن اور پاکستان تحریک انصاف کے نمائندوں نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ائیرپورٹ کو جاتا ہے، اور اس پر سے گزر کر ہی تمام جماعتوں کے کارکن اسلام آباد آتے ہیں۔

جسٹس اعجازالحسن کا کہنا تھا کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔

اس موقع پر جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ ان کی جماعت کی درخواست میں قانون پر عمل کرنے کی یقین دہانی موجود ہے اور اسی لیے ان کا جلسہ پرامن ہو گا۔

اس پر جیچ جسٹس نے کامران مرتضیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی پرامن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔

اسی دوران ایک موقع پر جسٹس مظہر جمال خان مندوخیل نے تحریک انصاف کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانے پر افسوس کا اظہار کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جے یو آئی والے بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکال لیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان