تحریک انصاف کا جلسہ: ’ایسا کنٹرولڈ جلسہ پہلے کبھی نہیں دیکھا‘

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار نے اسلام آباد میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے جلسے میں کیا دیکھا؟ جانیے ان کا آنکھوں دیکھا حال ۔

27 مارچ، 2022 کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے میں خواتین بھی شامل ہوئیں (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

وزیر اعظم عمران خان  نے گذشتہ دنوں اسلام آباد میں 10 لاکھ افراد کا جلسہ عام کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جلسے میں جا کر شرکا کی تعداد  کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے لیکن شاید تعداد سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وزیر اعظم اس موقعے پر کہتے کیا ہیں۔ ان کا اس جلسے کا مقصد کیا ہے؟

جلسے کے حوالے سے کافی تیاریاں کی گئیں اور خود وزیر اعظم عمران خان نے ایک ویڈیو پیغام میں عوام سے اس جلسے میں شرکت کی درخواست کی۔

ماضی میں تحریک انصاف کے جلسے جلوسوں کی آڈیو ویڈیو انتظامات کرنے والے ڈی جے بٹ بھی واپس لوٹ آئے۔ ان کے جماعت کے ساتھ ادائیگیوں کی وجہ سے کچھ تعلقات کشیدہ تھے لیکن اب بحال ہوچکے ہیں۔

جلسے کے لیے پہلے ریڈ زون میں واقع ڈی چوک کا انتخاب کیا گیا لیکن مقامی انتظامیہ کے تحفظات اور سپریم کورٹ کے ریمارکس کے بعد جلسے کو اسلام آباد میں واقع پریڈ گراؤنڈ منتقل کر دیا گیا۔

پریڈ گراؤنڈ کافی وسیع و عریض میدان ہے۔ چند روز پہلے یہاں 23 مارچ کی عالیشان پریڈ ہوئی جس میں ملکی جنگی تیاریوں کا مظاہرہ دیکھا گیا آج یہاں سیاسی طاقت کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔

چار دن پہلے اسی گراؤنڈ میں یوم پاکستان کی پریڈ تھی۔ انتہائی منظم اور تمیز دار اور صاف ستھرا ماحول لیکن چار دن بعد اُسی گراؤنڈ میں آج جب جانا ہوا تو شدید گندگی، طوفان بدتمیزی اور غیر منظم پروگرام دیکھنے کو ملا۔ 23 مارچ کو جتنا محفوظ اور آرام دہ محسوس کیا آج اتنا ہی اُس کے برعکس تھا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے خلاف عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کریں گے جس سے اتحادی جماعتیں اور منحرف ارکان قومی اسمبلی واپس ان کی طرف آ جائیں گے۔

اس جلسے کے اختتام تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ ناراض اراکین واپس لوٹیں گے یا نہیں۔

جلسے کی کوریج کے لیے میڈیا کو خصوصی کارڈز جاری کیے گئے جو گذشتہ 10 سالوں میں ہونے والے جلسوں کی کوریج کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی بات تھی۔

یہ خصوصی کارڈز پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کی عمارت میں رکھے گئے تاکہ میڈیا ورکرز انہیں وہاں سے حاصل کر سکیں۔

حکمران سیاسی جماعت کے لیے سرکاری وسائل کے مبینہ استعمال کی شکایت ملنے پر وزارت اطلاعات نے وضاحت کی کہ بین الاقوامی میڈیا کے کارڈز پی آئی ڈی میں اس لیے رکھے گئے تاکہ میڈیا کو دقت نہ ہو۔ وضاحت میں مزید بتایا گیا کہ یہ کارڈ تحریک انصاف کے مرکزی دفتر میں بنے ہیں۔

میں نے دوسرے میڈیا نمائندگان سے بات چیت کی تو سب کو یہی تحفظات تھے کہ کسی بھی جلسے کی کوریج آزادانہ ہوتی ہے، کبھی میڈیا کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول نہیں کیا گیا۔ میڈیا جو دیکھتا ہے وہی رپورٹ کرتا ہے لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ جلسہ گاہ میں جیمرز لگائے گئے جس کی وجہ سے موبائل فون بھی کام نہیں کر رہے تھے۔ جیمر وزیراعظم کی سکیورٹی کے لیے تھے۔

واضح رہے کہ میڈیا کو جلسے کی کوریج کے لیے کارڈ جاری کیے جانے کے باوجود ہر انٹری پوائنٹ پر رکاوٹیں موجود تھیں۔ سٹیج پر بھی مخصوص میڈیا کے علاوہ باقی تمام میڈیا کو رسائی نہیں دی گئی۔

خواتین کا انکلوژر سٹیج کے بالکل سامنے تھا، جسے خاردار تاروں سے محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی تاکہ مرد حضرات وہاں نہ آ سکیں۔ ہمیں بھی وہاں سے آگے نہیں جانے دیا گیا۔

میڈیا کی خواتین ورکرز نے جب لیڈیز انکلوژر کی کوریج کرنا چاہی تو اُدھر ڈیوٹی پر موجود خواتین نے خصوصی کارڈز کے باوجود سٹیج کی جانب جانے کی اجازت نہیں دی بلکہ کہا کہ آپ لوگ پیچھے چلے جائیں۔

جلسے کی میڈیا کوریج پر پابندی کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’تمام میڈیا کارکنان سر آنکھوں پر ہیں۔‘ ان کا یہ بیان ٹوئٹر پر سامنے آیا۔

جلسے کے حوالے سے اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ انتظامیہ نے نجی ٹی وی چینلز کو جلسے کی کوریج سے روک دیا ہے اور تمام نجی ٹی وی چینلز کی ڈی ایس این جیز کو جلسہ گاہ سے ہٹانے کا کہا گیا ہے۔

اس حوالے سے وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب کا بیان بھی سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جلسے کی کوریج کی اجازت صرف سرکاری میڈیا کو ہے۔

خاتون صحافی آمنہ الپیال نے تحریک انصاف کے جھنڈے کے ساتھ لگے ڈنڈے کو ہاتھ میں تھام لیا۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہ حفاظت کے لیے رکھا لیا ہے۔

2017 میں ایف نائن پارک جلسے میں خواتین کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی کے بعد میڈیا کی خواتین بہت مختاط ہو گئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جلسے کے لیے پریڈ گراؤنڈ کی پارکنگ میں گلگت بلتستان سے آئی 50 کے قریب سرکاری بسوں میں پارٹی کارکنان کو لایا گیا تھا۔

اس حوالے سے چند ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر چلائی گئیں جن میں سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے الزامات عائد کیے گئے لیکن ان ویڈیوز کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوسکی۔

جلسے میں ذیلی ریلیاں شرکت کرنے کے لیے تواتر کے ساتھ آ رہی تھیں۔ گاڑیوں پر تحریک انصاف کے بینرز لگائے گئے تھے اور شرکا نے لال اور سبز ٹوپیاں پہن رکھی تھیں جبکہ خواتین شرکا نے سبز اور سرخ امتزاج کے کپڑے پہن ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ چہرے پر سرخ اور سبز رنگ بھی کروا رکھا تھا۔ راقم نے 2013 سے تحریک انصاف کے جلسوں کی کوریج کی ہے۔ آج بظاہر عوام کا جذبہ 2014 والا ہی تھا لیکن ایک فرق یہ تھا جلسہ گاہ میں لوگوں کی زیادہ تعداد دیہی علاقوں سے زیادہ نظر آئی۔

عمران خان کی تقریر کا سب بےچینی  سے انتظار کر رہے تھے۔ ان کارکنوں کو امید تھی کہ ان کے رہنما ان سے کچھ نہیں چھپائیں گے اور سب بتا دیں گے۔ لیکن اس جلسے سے قبل شازین بگٹی کا علیحدہ ہونا حکمراں جماعت کے لیے بڑا دھچکا تھا۔

لیکن عمران خان کی تقریبا دو گھنٹے سے زیادہ تقریر کے اختتام پر انہوں نے بیرون ملک سے پیسوں کے ذریعے ان کی حکومت گرانے کی سازش جزوی بےنقاب کی۔

کون لوگ اس میں ملوث ہیں انہوں نے کچھ نہیں بتایا، پیسہ کہاں سے آیا کچھ نہیں بتایا اور انہیں کس نے تحریری طور پر دھمکی دی ہے؟

کارکنوں کے ذہنوں میں سوال یقینا زیادہ ہوں گے لیکن وہ یہ بات واضح طور پر سمجھ گئے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف غالبا عالمی سازش ہو رہی ہے۔ یعنی ان کی حکومت کو کمزور کرنے والے اندرون و بیرون ملک افراد کو ملوث قرار دیا۔

ایک مرتبہ پھر اگر ایسا ہوا ہے تو پیسہ کہاں سے کتنا آیا اتنا تو بتایا جاسکتا تھا؟ وہ ماضی میں بھی ایسی سازشوں جیسے کہ 35 پنچرز کا ذکر کرتے رہے ہیں لیکن اسے بعد میں ثابت نہیں کرسکے ہیں۔

پنڈال سے اب سیاسی جنگ پارلیمان منتقل ہوگی۔  دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کو اس جلسے اور ان کے تازہ بیان سے کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان