کیا خالد مقبول صدیقی نے وزیراعظم کی کال پر فون سائلنٹ کر دیا؟

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار ایم کیو ایم کے کراچی مرکز میں رابطہ کمیٹی کے تحریک عدم اعتماد پر اہم اجلاس کور کرنے گئیں تو انہوں کیا دیکھا؟ جانیے انہی کی زبانی۔

متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی   (تصویر خالد مقبول صدیقی/ ٹوئٹر اکاؤنٹ)

کراچی کےعلاقے بہادرآباد میں واقع ایم کیو ایم کے عارضی مرکز میں غیر معمولی خاموشی تھی۔ یہ حکومت سے علیحدہ ہونے کا سوگ تھا، فیصلے کے بارے میں شکوک و شبہات یا آنے والے طوفان سے پہلے کا سناٹا یہ واضح نہیں تھا۔

لیکن ایم کیو ایم کے بہادر آباد مرکز کی چار منزلہ عمارت جس میں ایک تہہ خانہ بھی موجود ہے۔ نچلی منزل پر صحافی سرگوشیوں میں باتیں اور اوپری منزل پر رابطہ کمیٹی کے چند ارکان مشاورت کرنے میں مشغول تھے۔

یہ کراچی نہیں بلکہ پورے ملک کی ایک اعداد میں اس وقت قدرے چھوٹی لیکن اختیار میں بڑی جماعت کا صدر دفتر ہے۔ یہ جماعت پچھلی تین دھائیوں میں تقریبا ہر حکومت کا حصہ رہی لیکن اسے اکثر مطالبات پر پیش رفت نہ ہونے کی دائمی شکایت رہی ہے۔

ایم کیو ایم کے بہادرآباد آفس کی عمارت کے باہر بڑے حروف میں ’عارضی مرکزی آفس‘ درج ہے۔ یقینا یہ دفتر یا کرائے کا مکان ہے گھر تو نائن زیرو تھا۔ اس دفتر میں چار منزلوں پر محیط بڑے ہال و کمرے، وسیع لابی، لگژری صوفے اور مانیٹرنگ رومز تو ہیں مگر نائن زیرو والی شان و شوکت کہاں کہ لال اینٹوں سے بنا ایک مستقل ریڈ کارپیٹ نما سلسلہ جو ایک کلومیٹر تک عزیزآباد کے جناح گراؤنڈ سے شروع ہو کر نان زیرو پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہ لال اینٹوں کا ریمپ آج بھی موجود ہے مگر کیا نائن زیرو موجود ہے؟ اور کیا پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو اپنا گھر رینجرز سے واپس دلوا سکے گی؟

آج بھی نائن زیرو کے داخلی دروازے پر ایک بڑا سا لاتا لگا ہے جس کے تصویر لینا تو دور آپ اس کے قریب کھڑے بھی نہیں ہوسکتے کیوں کہ اس کے بالکل ساتھ ہی ڈیسک پر موجود ایک رینجرز کا اہلکار آپ کو اس دفتر کی دہلیز پر پیر تک نہیں رکھنے دیتا۔

2019 میں انڈپینڈنٹ اردو نے ایم کیو ایم کے نائن زیرو کے مرکز میں تین سیل شدہ داخلی دروازوں میں سے ایک کی تصویر لینا چاہی تو فوراً روک دیا گیا تھا۔ یہ کہہ کر کہ ’یہاں کھڑے ہو کر دروازہ دیکھنے پر بھی پابندی ہے، بی بی آپ تصویر کیسے لے سکتی ہیں؟‘

اگر رینجرز ہیڈکواٹرز سے خصوصی اجازت لے کر آج آپ نائن زیرو کا دورہ کریں تو آپ دیکھیں گے کی اس دروازے پر لگی بانی متحدہ الطاف حسین کی تصویر ہٹا دی گئی ہے۔ اس کے دائیں جانب رکھی پتنگ یعنی ایم کیو ایم کا سیاسی نشان بھی ہٹا دیا گیا ہے اور سفید رنگ کے لوہے کے گیٹ پر ایم کیو ایم کے سیاسی نشان پر پاکستان کے نقشے کے نیچے موجود پانچ ستاروں کو بری طرح کُھرچ دیا گیا ہے، جیسے نام ونشان مٹانے کی کوشش کی گئی ہو۔

سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ’ون پیج‘ والی تحریک انصاف حکومت اگر ان کے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا معاملہ حل نہیں کرواسکی تو مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی نے اسے اس بابت کیا ضمانت دی ہوگی۔ بعض کے خیال میں خود ایم کیو ایم کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ مشکل سے حل طلب مسئلہ ہے لیکن اس کی سیاست کے لیے بہتر ہے کہ وہ اسے اٹھاتی رہے۔

پھر کچھ ہی دیر میں یکے بعد دیگرے صحافیوں کے موبائل فونز کی گھنٹیاں بجیں اور ایم کیو ایم کے دونوں وفاقی وزرا امین الحق اور فروغ نسیم کے استعفوں کی کاپیاں موصول ہوئیں۔

سینیئر صحافی اویس توحید نے ایک ٹویٹ میں ایم کیو ایم کی فروغ نسیم کے بارے میں پالیسی پر روشنی تاہم ڈالتے ہوئے اسے مبہم قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’فروغ نسیم اپنی سیاسی وفاداریاں اتنی آسانی سے تبدیل کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کہا کرتی تھی کہ وہ اس کے کوٹے پر وزارتی قلمدان نہیں رکھتے ہیں۔ اب وہ ایک بار پھر ایم کیو ایم کی جھولی میں ہیں ... باقی کسی کا بھی تخیل ہے !!!

بہادرآباد آفس کے باہر آج مختلف میڈیا چینلز کی گاڑیاں لمبی قطاروں میں موجود تھیں۔ کراچی کی تپتی دھوپ میں صحافی اپنے کیمرے لگائے کافی دیر سے اس آس میں کھڑے تھے کہ بس کسی بھی لمحے رابطہ کمیٹی کےارکان دفتر سے باہر آکر استعفوں کی تصدیق کریں گے اور رپورٹرز کے سوالوں کے جواب دیں گے مگر مشاورت کا عمل کافی طویل چلا۔

داخلی راستے کی سیڑھیوں اور گراؤنڈ فلور کی لابی میں جگہ جگہ صحافی براجمان تھے۔ ان میں سے کچھ گروپس قہقہے لگاتے اور ایم کیو ایم کے اپوزیشن کا ساتھ دینے کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے نظر آئے۔ مگر ان کے آس پاس موجود ایم کیو ایم کے چند کارکنان نہ مسکرا رہے تھے اور نہ ہی ہنس رہے تھے۔ نظروں نظروں میں باتیں کرتے ان کارکنان کو جیسے کوئی سیاسی روگ لگا ہو۔

عام طور پر یہاں چہل قدمی اور رونق رہتی ہے مگر آج ایم کیو ایم کے بہادرآباد مرکز کے پنکھے بھی ہلکے چل رہے تھے۔ اتنے میں تھوڑی ہلچل ہوئی اور لوگوں نے ایک دوسرے کو جھنجوڑ کر اٹھایا۔ متحده کی ڈپٹی کنوینر نسرین جلیل سفید ساڑھی اور لکڑی کی چھڑی ہاتھ میں لیے داخل ہوئیں۔

صحافیوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی، ان سے پوچھا کہ  ماضی میں تو پیپلزپارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم کا تجربہ اچھا نہیں رہا تو اب اس کے کراچی، حیدرآباد کی ایڈمنسٹریٹرشپ اور سندھ حکومت میں ایک وزارت کے وعدوں کی کیا ضمانت ہے؟

اس حوالے سے نسرین جلیل نے کہا کہ ’جنگیں ہوجاتی ہیں، پھر بھی لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں تاکہ بہتری آئے۔ ہمیں حوصلہ دیں تاکہ آپ کے ہی شہر میں بہتری آئے۔ آج کے اجلاس میں پوری رابطہ کمیٹی کو اعتماد میں لیا جائے گا اور تھوڑی دیر میں سب پتا چل جائے گا۔‘

نسرین جلیل بھی جلد از جلد میڈیا کے سوالوں سے بچ بچا کر رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں شامل ہوگئیں۔

البتہ اس دوران چند صحافی یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو کال کی مگر انہوں نے وہ کال اٹھانے کی بجائے موبائل سائلنٹ پر کر دیا۔

وزیراعظم عمران خان نے بہادر آباد کا نو مارچ کو دورہ کیا تھا تاکہ اس جماعت کی شکایات جان سکیں لیکن اب لگتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔

سینیئر صحافی خورشید عالم نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں نے جب ان کے ذمہ داران سے اس بارے میں پوچھا تو وہ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ گویا کہا کچھ بھی نہیں اور کہہ سب کچھ گئے۔‘

اس کال کے بارے میں تحریک انصاف کی جانب سے بھی کبھی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس دوران ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کیسے ایک دوسرے کے لیے اتنے اچھے ہوگئے کہ اچانک بہت اچھی اچھی باتیں شروع ہوگئیں۔ جہاں تک ایڈمنسٹیٹرشپ اور سندھ حکومت میں وزارت کی بات ہے، پیپلز پارٹی نے کہا تو ہے کہ وہ یہ بھی دے دیں گے اور وہ بھی، ہم آپ کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لا دیں گے۔ مگر ماضی کا تجربہ اس عاشق اور ماشوق کے لیے  کبھی اچھا رہا نہیں۔ تو آئندہ ہم اس بارے میں بہت پر امید نہیں رہ سکتے۔‘

ان کا اصرار تھا کہ ’میرے حساب سے ایم کیو ایم نے یہ درست فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘

وزیر اعظم آپ کو فون کریں اور آپ ان کا فون سائلنٹ کردیں، یہ تو ہر روز نہیں ہوتا، اس لیے یہ بات ایم کیو ایم کے دفتر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلی۔ گراؤنڈ فلور پر موجود جس کارکن سے اس بارے میں پوچھا انہوں نے معذرت کر لی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس چپ کی وجہ تب معلوم ہوئی جب ایک طویل انتظار کے بعد متحده کی ڈپٹی کنوینر نسرین جلیل رابطہ کمیٹی کے دیگر ممبران کے ساتھ دوسری منزل سے اتر کر گراؤنڈ فلور پر آئیں۔ تمام صحافیوں اور کیمرا مینز نے برق رفتاری سے میڈیا ٹاک کے مقام کو گھیر لیا۔

صحافی چھریاں تیز کر کے سوالوں کی بارش کرنے کے لیے تیار ہوئے ہی تھے کہ میڈیا ٹاک شروع ہوتے ہی ختم ہوگئی اور رابطہ کمیٹی کے ارکان نے سوال لینے سے معذرت کرلی۔

میڈیا ٹاک کرتے ہوئے نسرین جلیل نے بتایا کہ اس تمام تر معاملے کی تفصیل ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی شہر اقتدار میں پریس کانفرنس میں بتائی جائے گی۔ اس وقت تک بہتر ہے کہ ایم کیو ایم کا کوئی بھی کارکن کسی بھی سوال کا جواب نہ دے۔

اتنے طویل انتظار کے بعد اس قدر مختصر پریس کانفرنس سے کئی صحافی مایوس ہوگئے مگر وہ جانتے تھے کہ تمام تر سیاسی شور اس وقت اسلام آباد میں ہی ہے۔

اس سے پہلے کہ یہ مایوسی کی فضا صحافیوں میں پھیل جاتی ایم کیو ایم کے دفتر کی جانب سے تمام لوگوں کو چائے کی پیشکش کی گئی۔ عام لوگ اور ایم کیو ایم کے رہنما سب اس امید سے ہیں کہ حکومت جو بھی ہو کم از کم ان کے دائمی مسائل حل ہونے چاہیں۔

بہادر آباد سے واپسی پر ایک ہی بات ذہن میں گھوم رہی تھی کہ اس جماعت نے گذشتہ برسوں میں کیسے کیسے اندرونی و بیرونی بحران نہیں دیکھے لیکن پاکستانی سیاست میں اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست