تحریک عدم اعتماد: پی پی پی، ایم کیو ایم ڈیل، کس کو کتنا فائدہ ہوگا؟  

اینکر پرسن فیاض نائچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیاں ڈیل کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ دونوں جماعتوں کے درمیان ڈیل اور اتحاد کی ایک لمبی تاریخ ہے اور دونوں سندھ میں ایک دوسرے کے روایتی اتحادی رہے ہیں۔  

 29 مارچ 2022 کی اس تصویر میں ایم کیو ایم کے رہنما پریس کانفرنس کے لیے موجود ہیں (تصویر: ایم کیو ایم ٹوئٹر آفیشل)

 متحدہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے لائی گئی تحریک عدم اعتماد میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ایک ڈیل کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے حکومت کے بجائے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔  

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس ڈیل سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی، دونوں کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔  

اینکر پرسن فیاض نائچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیاں ڈیل کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ دونوں جماعتوں کے درمیان ڈیل اور اتحاد کی ایک لمبی تاریخ ہے اور دونوں سندھ میں ایک دوسرے کے روایتی اتحادی رہے ہیں۔  

ڈیل یا اتحاد کا دونوں جماعتوں میں سے کس کو کتنا فائدہ یا کتنا نقصان ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں فیاض نائچ نے کہا ’ایم کیو ایم اور پی پی پی ڈیل کا نقصان صرف اور صرف عمران خان یا ان کی جماعت پی ٹی کو ہوگا۔ باقی ایم کیو ایم اور پی پی پی کو تو فائدہ ہی فائدہ ہے۔‘

واضح رہے کہ تحریک انصاف حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے عمران خان کا تقریباً ساڑھے تین سال طویل ساتھ چھوڑ کر ان کو ہٹانے والی تحریک عدم اعتماد پر متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے۔ 

بدھ کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول صدیقی نے اعلان کیا کہ وہ حکومت کے بجائے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہیں۔  

اس سے پہلے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایم کیو ایم کو حکومت کا ساتھ دینے کے لیے کراچی کے بہادرآباد میں واقع ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی دفتر کا بھی دورہ کیا اور بعد میں ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بظاہر ایم کیو ایم نے بھی حکومت اتحاد کا ساتھ دینے کا اعلان کرتی رہی مگر 29 مارچ کو رات دیر سے ایم کیو ایم قیادت نے حکومت کے بجائے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔  

فیاض نائچ کے مطابق پی پی پی اور ایم کیو ایم اتحاد کا دنوں جماعتیں فائدہ لیں گے۔ ان کے مطابق ’پہلے ایم کیو ایم پر مسلح ہونے کا الزام تھا مگر اب یہ الزام بھی نہیں، اس لیے پی پی پی کے ساتھ کراچی میں کام کرکے ووٹ بینک بڑھانے کا موقعہ ملے گا، جیسے ضمنی انتخاب میں فیصل ووڈا کو ہرا کر پی پی پی کے عبدالقادر مندوخیل نے نششت لی۔ ایم کیو ایم کی اتحادی ہونے کے باعث انتخابی سیاست کرنے میں آسانی ہوگی۔‘

’اگر ایم کیو ایم پی ٹی آئی حکومت سے کوئی ڈیل کرتی تو ان کے دیگر مطالبات کے ساتھ انھیں وفاقی حکومت میں ایڈجسٹ کیا جاتا۔ مگر پی پی پی سے ڈیل کرکے وہ صرف اپنے مطالبات منائے گی، بلکہ وفاق کے علاوہ سندھ کی حکومتوں میں اپنا حصہ لے گی۔‘

’ایم کیو ایم سے ڈیل کرکے پی پی پی کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پی پی پی کو اپنے سخت مخالف عمران خان کو وزارت اعظمیٰ سے ہٹانے میں مدد ملی۔ تو اس طرح اس ڈیل میں دونوں فریقین خوش ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان