ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین لندن کی عدالت سے بری

لندن کی ایک عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو دہشت گردی پر اکسانے اور نفرت انگیز تقاریر کے مقدمات میں بے قصور قرار دے دیا ہے۔

لندن کی ایک عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو دہشت گردی پر اکسانے اور نفرت انگیز تقاریر کے مقدمات میں بے قصور قرار دے دیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے خلاف مقدمہ لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ میں چل رہا تھا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق الطاف حسین پر دہشت گردی پر اکسانے اور نفرت انگیز تقاریر کا جرم ثابت نہیں ہو سکا ہے۔

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین پر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سے متعلق دو الزامات تھے جن کا تعلق ان کی 22 اگست 2016 کو کی جانے والی تقاریر سے تھا۔

گذشتہ 17 دن سے چلنے والے اس کیس میں آج بھی پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ عدالتی کارروائی کو بدھ تک ملتوی کر دیا جائے تاہم جیوری کو دوبارہ بلایا گیا اور آخری لمحات میں جیوری اس فیصلے پر متفق ہو گئی۔

لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ میں منگل کو ہونے والی اہم سماعت کے موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان بھی بری تعداد میں عدالت کے باہر موجود تھے۔

اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین نے عدالت کے باہر موجود صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس خدا کا شکرگزار ہوں جس نے مجھے یہ فتح دلائی اور میں اپنے مقصد کے لیے لڑتا رہوں گا چاہے کچھ بھی ہو۔‘

اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کے 68 سالہ بانی الطاف حسین کے مقدمے کی سماعت گذشتہ ہفتے حتمی مراحل میں داخل ہوئی جب دونوں طرف یعنی استغاثہ اور الطاف حسین کے وکیل صفائی کی طرف سے دلائل مکمل کر لیے گئے تھے۔

گذشتہ روز ہونے ہوالی سماعت کے دوران الطاف حسین کو اپنے حق میں بولنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا مگر انہوں نے سٹینڈ پر نہ آنے کو ترجیح دی اور اپنے وکیل کے ذریعے اپنا دفاع کرنا مناسب سمجھا۔

22 اگست 2016 میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے ایک ٹیلیفونک خطاب کیا تھا۔ اس خطاب کے دوران انہوں نے کچھ الفاظ استعمال کیے تھے جو برطانوی قانون کے مطابق مبینہ طور پر نفرت انگیز تقریر کے زمرے میں آتے ہیں اور برطانوی قانون میں اس کی قطعی اجازت نہیں ہے۔

الطاف حسین پر عائد کی جانے والی فرد جرم کو دو علیحدہ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن دونوں کا تعلق ’دہشت گردی کی حوصلہ افزائی‘ سے متعلق جرائم سے تھا جو مقدمے کی بنیاد تھے۔

کنگ سٹن کراؤن کورٹ میں سوموار کو الطاف حسین وقفے کے دوران وہیل چیر پر بیٹھ کر باہر آئے۔ پرانی جان پہچان کی وجہ سے تقریباً ایک گھنٹے تک میرے ساتھ بات چیت کرتے رہے، اس میں بعد میں دیگر صحافی بھی شامل ہوگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے ساتھ یہ گفتگو دلچسپ رہی۔ ایسا لگ نہیں رہا تھا کہ وہ کسی دباؤ یا سٹریس میں ہیں۔ عدالت کے اندر ریکارڈنگ کی اجازت نہیں اس لیے ان کے ساتھ تمام باتیں آف دی ریکارڈ رہیں۔ البتہ عدالت کے باہر میں نے ان سے سوال پوچھا کہ اگلے دن کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’اللہ بہتر جانتا ہے۔ دعائیں ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالی سے مثبت امید رکھنی چاہیے اور میں مثبت امید ہی رکھ رہا ہوں۔‘

22 اگست 2016 کو کیا ہوا تھا؟

الطاف حسین نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود پارٹی کے کارکنان سے لندن سے ٹیلیفون کے ذریعے کیے جانے والے اپنے خطاب میں ’پاکستان مخالف تقریر‘ کی تھی جس کے بعد پاکستان میں ان کی تقاریر پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

ان کی تقریر کے بعد مشتعل ہجوم نے ٹی وی چینلز کا رخ کیا تھا اور وہاں داخل ہوکر توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔

اس واقعے کے بعد ان کی اپنی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

 برطانیہ میں اس قسم کے مقدمات کو کراؤن کورٹ دیکھتی ہے جہاں مقدمات کا فیصلہ 13 خواتین و مردوں پر مشتمل جیوری کرتی ہے۔

اسی جیوری کی خاتون جج جسٹس مے نے ہدایات دی ہے کہ الطاف حسین نے اپنے حق میں سٹینڈ نہیں لیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے اپنا دفاع نہیں کیا اور وہ جرم کے مرتکب ہوئے بلکہ جیوری سارے حقائق کو مدنظر رکھ کر اکثریتی فیصلے پر پہنچے گی۔

برطانیہ کے کریمنل لا یعنی جرائم کے قانون کے مطابق مشتبہ مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ’بیونڈ ریزن ایبل‘ ڈاؤٹ کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شک کی تھوڑی سی گنجائش بھی نہیں رہنی چاہیے۔

عدالت کا موقف تھا کہ کیا الطاف حسین کی ’reckless and intention‘ تھی؟ ان دو باتوں کو جیوری اپنے دیہان میں رکھے۔

الطاف حسین نے دہشت گردی ایکٹ (ٹی اے سی ٹی) 2006 کے سیکشن ون (2) کے تحت ان پر عائد کردہ الزامات سے بے قصور قرار دینے کی درخواست دی تھی۔

پراسیکیوشن نے اس بات پر زور دیا کہ الطاف حسین نے نہ تو معافی مانگی اور نہ ہی پشیمانی کا اظہار کیا مگر ان کے دفاع میں کہا گیا کہ انہوں نے ٹوئٹر پر معافی مانگی تھی۔

لندن پولیس کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کو سنگین جرائم ایکٹ 2017 کے سیکشن 44 کے تحت 11 جون 2019 میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں ان کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔

ان کی ضمانت کی شرائط میں ان پر تقاریر کرنے پر پابندی اور ہر رات کے کچھ حصے میں اپنی رہائش گاہ پر رہنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ کسی قسم کے سفری دستاویزات حاصل نہیں کرسکتے اور ان کا پاسپورٹ پولیس کی تحویل میں رہا۔

بانی ایم کیو ایم 90 کی دہائی کے اوائل سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے برطانوی شہریت حاصل کر لی تھی تاہم لندن سے وہ باقاعدگی کے ساتھ اپنی جماعت کا انتظام بھی چلاتے رہے اور اپنے کارکنوں سے سیاسی تقاریر کے ذریعے کراچی کی سیاست میں متحرک کردار ادا کرتے رہے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست