پشاور:’معاوضہ نہ دو، پاکستان میں رہنے دو‘

پشاور دھماکے میں صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے متاثرین کو مالی امداد دی جا رہی ہے لیکن افغان شہری اور صوبہ پنجاب کے متاثرین اس مدد کے لیے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں۔

حامد محسن كا نو سالہ بیٹا احمد امید جو چار مارچ كو جامعہ مسجد كوچہ رسالدار میں ہونے والے خود كش حملے میں زخمی ہوا (تصویر :عبداللہ جان)

’میرا بیٹا اپنے پانچ بچوں كی تعلیم كی خاطر پورے خاندان كو پشاور لایا تھا، لیكن قسمت كو كچھ اور ہی منظور تھا، ہمیں معاوضہ نہیں دے رہے، نہ دیں، كم از كم ہمیں پاكستان میں رہنے كی اجازت دے دیں۔‘

یہ كہنا تھا چار مارچ كو كوچہ رسالدار كی مسجد میں خود كش دھماكے كے نتیجے میں جان گنوانے والے 42 سالہ افغان باشندے حامد محسن كی ماں ذاكرہ بی بی كا، جو اپنے پانچ پوتے پوتیوں، دو بیٹیوں اور بہوؤں كے ساتھ پشاور میں مقیم ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں 60 سالہ ذاكرہ بی بی نے كہا ان كا بیٹا ہمیشہ اپنے بچوں كی تعلیم اور بہتر مستقبل سے متعلق فكر مند رہتا تھا، اور افغانستان میں تعلیمی سہولتوں كی كمی كی وجہ سے دو ماہ قبل اپنے خاندان كو پشاور چھوڑ گیا تھا۔ 

 كابل میں ایک ٹریول ایجنسی سے منسلک حامد محسن اس واقعے سے چند روز قبل ہی اپنے خاندان سے ملنے چھٹی پر پشاور آئے تھے اور چار مارچ كو اپنے نو سالہ بیٹے احمد امید كے ساتھ جامعہ مسجد كوچہ رسالدار میں نماز جمعہ ادا كرنے كے لیے موجود تھے۔  

احمد امید مسجد كے دھماكے میں زخمی ہوئے اور ڈاكٹروں نے انہیں دو مہینے كے مكمل آرام كا كہہ ركھا ہے۔  

بدقسمت خاندان افغانستان سے تعلق ہونے كے باعث خیبر پختونخوا حكومت كی جانب سے خود كش حملے كے متاثرین كے لیے اعلان كردہ امدادی رقوم سے بھی محروم رہ گیا ہے۔ 

یاد رہے كہ جامعہ مسجد كوچہ رسالدار میں نماز جمعہ كے دوران خود كش حملے میں 70 سے زیادہ افراد زندگیوں سے محروم اور تقریباً 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ 

موت كو گلے لگانے والوں میں چار افغان باشندے بھی شامل ہیں، جبكہ دو مرحومین كا تعلق پاكستان كے صوبے پنجاب سے ہے۔ 

خود كش حملے میں ہلاک ہونے والوں كے چہلم كی رسومات رواں ہفتے كے دوران ادا كی جا رہی ہیں۔   

ذاكرہ بی بی نے كہا كہ فی الحال ان كی گزر بسر مخیر حضرات كی امداد پر ہو رہا ہے۔ ’لیكن مجھے نہیں معلوم آگے ہمارا كیا ہوگا، اور اگر ہمیں پاكستان سے نكال دیا گیا تو ہم بالكل در بدر ہو جائیں گے۔‘ 

انہوں نے پاكستانی حكام سے انہیں پشاور میں مستقل اور قانونی قیام كی اجازت دینے كی اپیل كرتے ہوئے كہا: ’اگر ہمیں یہاں رہنے كی اجازت مل جاتی ہے تو میں اپنے بیٹے كے بچوں كو كسی نہ كسی طرح پڑھا كر اس كا خواب پورا كرنے كے قابل ہو سكوں گی۔‘ 

امدادی رقوم كی ادائیگی 

خیبر پختونخوا حكومت نے جامعہ مسجد كوچہ رسالدار خود كش حملے میں ہلاک ہونے والوں كے لواحقین كے لیے 30، 30 لاكھ روپے، جبكہ شدید اور معمولی زخمیوں كے لیے بالترتیب پانچ اور دو لاكھ روپے كی امداد كا اعلان كیا ہے۔ 

ڈپٹی كمشنر پشاور كے سینیئر اہلكار حسیب رحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو كو بتایا كہ فی الحال 31 افراد كے لواحقین كو معاوضہ ادا كر دیا گیا ہے، جبكہ زخمیوں كو میڈیكل بورڈ كی رپورٹس آنے كے بعد ادائیگیاں كی جائیں گی۔ 

انہوں نے كہا: ’ایسے حادثات كے متاثرین كو خیبر پختونخوا ریگولیشنز 2019 كے تحت قائم سویلین وكٹمز سپورٹ فنڈ سے معاوضے ادا كیے جاتے ہیں۔‘ 

تاہم اس واقعے میں جان گنوانے اور زخمی ہونے والے افغان باشندوں، پنجاب سے تعلق ركھنے والے پاكستانی شہریوں اور سركاری ملازمین كو معاوضے كے لیے نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ 

ایک سوال كے جواب میں حسیب رحمٰن نے وضاحت دی كہ متذكرہ ریگولیشنز كے تحت صرف خیبر پختونخوا كا ڈومیسائل ركھنے والے پاكستانی شہری ہی ان كے اہل ہو سكتے ہیں۔ 

انہوں نے كہا كہ افغان باشندوں كو ان كی حكومت یا بین الاقوامی ادارے امدادی رقوم ادا كر سكتے ہیں۔ 

تاہم خود كش حملے میں ہلاک ہونے والے ایک دوسرے افغان شہری حاجی عید محمد كے بیٹے سجاد حسین كا كہنا تھا كہ ان كے خاندان كو ابھی تک كسی ادارے یا این جی او كی طرف سے امداد كی اطلاع تک نہیں ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حامد محسن كی والدہ ذاكرہ بی بی كا كہنا تھا: ’ہمارے مالک مكان نے چھ مہینے كا كرایہ معاف كر دیا ہے، لیكن كسی حكومت یا ادارے كی امداد كا مجھے علم نہیں ہے۔‘ 

حسیب رحمٰن نے مزید بتایا كہ پاكستان كے دوسرے صوبوں سے تعلق ركھنے والے متاثرین كو ان كی صوبائی حكومتیں امدادی رقوم ادا كر سكتی ہیں۔ 

انہوں نے كہا كہ اسی طرح خود كش حملے كے متاثرہ سركاری ملازمین اور ان كے لواحقین كو بھی ان كے متعلقہ محكمے امدادی رقوم ادا كریں گے۔ 

یاد رہے كہ پاكستان میں ہر صوبے میں سركاری محكمے اپنے ملازمین كی دہشت گردی كے واقعات میں ہلاكت كی صورت میں ان كے لواحقین كو ڈیتھ گرانٹ نامی فنڈ سے معاوضہ ادا كرتے ہیں، جبكہ زخمیوں كے لیے ایسی سہولت موجود نہیں ہے۔ 

سركاری ذرائع كے مطابق كوچہ رسالدار خود كش حملے میں زخمی ہونے والے خیبر پختونخوا حكومت كے محكموں كے ملازمین كو صوبائی حكومت كے اعلان كردہ امدادی پیكج میں جگہ دی جارہی ہے۔ 

’مسجد میں مشكوک افراد دیكھے ‘

كوچہ رسالدار كے رہائشی اختر علی شمیم نے انڈپینڈنٹ اردو كو بتایا كہ دھماكے سے قبل کئی مرتبہ كچھ مشكوک افراد كو مسجد میں دیكھا گیا تھا۔ 

’دو تین لڑكے ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوتے تھے، انہیں ہم میں سے كسی نے پہلے كبھی نہیں دیكھا تھا، اور ایسا ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا۔‘ 

اختر علی شمیم نے مزید كہا كہ انجان افراد كو مسجد میں دیكھ كر بعض لوگوں نے اپنے شكوک كا اظہار كیا، تاہم كسی نے ان سے كوئی سوال نہیں كیا۔ 

مشكوک افراد كی مسجد میں بار بار موجودگی سے متعلق پولیس یا انتظامیہ كو اطلاع دینے كے سوال پر ان كا كہنا تھا: ’میرا خود اور شاید دیگر لوگوں كا بھی اس طرف دھیان نہیں گیا كہ ایسا كوئی واقع ہو سكتا ہے، لیكن یہ ایک غلطی تھی جو ہم لوگوں سے ہوئی۔‘ 

تحقیقات كس مرحلے میں ہیں؟ 

محكمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) خیبر پختونخوا كے سربراہ ڈی آئی جی جاوید اقبال كے مطابق جامعہ مسجد كوچہ رسالدار میں ہونے والے خود كش حملے میں ملوث كم از كم چار سہولت كاروں كو مختلف آپریشنز میں ہلاک كر دیا گیا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے كہا كہ تین سہولت كاروں كو واقعے كے چوتھے روز ضلع خیبر میں ایک آپریشن كے نتیجے میں مارا گیا، جبكہ دانیال نامی سہولت كار گذشتہ ہفتے كے دوران پولیس كے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہوا۔ 


انہوں نے كہا كہ دانیال، جو خیبر پختونخوا پولیس كو دوسرے دہشت گردی كے واقعات میں بھی مطلوب تھا، خود كش بیلٹ باندھے ركھتا تھا۔ 

’جب پولیس پارٹی نے اسے گھیر لیا تو دانیال نے اپنے آپ كو خود كش بیلٹ كی مدد سے اڑا دیا۔‘ 

جاوید اقبال كا مزید كہنا تھا كہ خیبر پختونخوا پولیس کئی مہینوں سے كوچہ رسالدار خود كش حملے كرنے والے نیٹ ورک كے پیچھے تھی، اور اب تک اس كے كم از كم 25 اركان كو ہلاک كر دیا گیا ہے، جبكہ دوسرے درجنوں گرفتار ہیں۔ 

یاد رہے كہ كوچہ رسالدار خود كش حملے كی ذمہ داری عسكریت پسند تنظیم داعش نے قبول كی تھی۔ 

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا كا مزید كہنا تھا كہ حكومت نے اسی نیٹ ورک سے تعلق ركھنے والے دو افراد كے سروں كی قیمت بھی مقرر كر ركھی ہے۔ 

جاوید اقبال كے مطابق نیٹ ورک میں شامل 80 فیصد افراد كا تعلق افغانستان سے ہے، جنہوں نے پاكستانی شناختی كارڈ حاصل كر ركھے ہیں۔ 

ان كا كہنا تھا كہ مذكورہ نیٹ ورک تحریک طالبان سوات ملا فضل اللہ كی ہلاكت كے بعد شكست و ریخت كا شكار ہوا، اور اس سے بیشتر دوسرے گروہ بنے جن میں كوچہ رسالدار میں خود كش حملہ كرنے والا نیٹ ورک بھی شامل ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان