آخر عمران خان نے ایسا رستہ کیوں چنا؟

آخر عمران خان نے ایسا رستہ کیوں چنا جس سے ان کا نام شاید آئین سے انحراف کرنے والے ڈکٹیٹرز کی صف میں شامل ہو جائے؟

عمران خان نے اتوار کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے فوراً بعد ہی صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز دی تھی (تصویر: فیس بک/ عمران خان)

‎عمران خان کے بقول عدم اعتماد کی تحریک امریکی سازش تھی جس کا مقصد انہیں ہر صورت اقتدار سے باہر کرنا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کر کے اس سازش کو خود ہی کامیابی سے ہمکنار کر چکے ہیں۔

ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے امریکی سازش قرار دے کر عدم اعتماد کی تحریک اس دن مسترد کر دی جس دن اس پر ووٹنگ ہونا تھی اور اس کے فوراً بعد عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ سنایا جس پر صدر عارف علوی نے فوراً عمل بھی کر دیا۔

یہاں آئینی اور قانونی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن قانونی ماہرین کی اکثریت ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو ماورائے آئین قرار دے رہی ہے۔

‎بحرحال یہ فیصلہ اب سپریم کورٹ نے کرنا ہے کہ کیا سپیکر کی غیر آئینی رولنگ کو بھی ‎آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے؟

تحریک عدم اعتماد کے بطن سے پاکستان میں آئینی بحران جنم لے چکا ہے۔ قومی اسمبلی تحلیل جبکہ کابینہ ختم ہو چکی۔ پنجاب اسمبلی میں بھی ایسا بحران پیدا کیا جا چکا ہے جس کی آئینی اور پارلیمانی روایات میں قطعاً گنجائش نہیں۔

سوال یہ ہے کہ‎ عمران خان نے اگر اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات ہی کی طرف جانا تھا تو ایسا تو آئینی بحران پیدا کیے بغیر بھی ہو سکتا تھا؟ آخر عمران خان نے ایسا رستہ کیوں چنا جس سے ان کا نام شاید آئین سے انحراف کرنے والے ڈکٹیٹرز کی صف میں شامل ہو جائے؟

اس کا جواب 22 مارچ کو تحریر کردہ کالم کی ان سطور میں مل سکتا ہے کہ ’اگر حکومت کو اندازہ ہو جائے کہ حالات اب اس کے لیے قطعاً سازگار نہیں رہے تو پھر وہ وہی کرے گی جو اس کی حکمت عملی کو موافق آئے۔‘

تحریک انصاف ایک ایسا بیانیہ بنانا چاہتی تھی جس سے ان کی بنیادی اور کور سپورٹ دوبارہ سے منظم ہو سکے اور اس بیانیے کی کامیابی کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

البتہ یہ بات پی ٹی آئی کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آئین پاکستان اور امریکہ کے ساتھ ملکی تعلقات کی قیمت پر بنایا گیا یہ بیانیہ شاید کچھ عارضی کامیابیاں تو سمیٹ لے لیکن یہ حکمت عملی بہت سے معاملات میں آل ریڈی بیک فائر کر چکی ہے۔

اس وقت نوشتہ دیوار یہ ہے جو کہ خان صاحب کو پڑھ لینی چاہیے کہ مبینہ امریکی سازش کا بھانڈا آئندہ آنے والے چند دنوں اور ہفتوں میں بیچ چوراہے پھوٹنے والا ہے۔

‎اس وقت اگر عدم اعتماد کے جمہوری عمل کو آئین اور قوانین کے تحت ہونے دیا جاتا تو عمران خان کے پاس ایک موقع تھا کہ دنیا کو بتا دیتے کہ ان کے اتحادیوں اور دو درجن پارٹی کے ممبران اسمبلی کا ضمیر اچانک کیسے جاگا اور ’ناقابل بیان‘ حالات کے باوجود انہوں نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست کو گلے لگایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‎لیکن ڈپٹی سپیکر کی حیرت انگیز ماورائے آئین رولنگ کے بعد ان کا معاملہ ایسے ہی ہو چکا ہے جیسے میچ کے آخری اوور میں ہارنے والی ٹیم کا کپتان وکٹیں اکھاڑ کر مطالبہ کرے کہ یا تو میچ دوبارہ کرائیں ورنہ ہم اب تک ہوئے کھیل کو نہیں مانتے۔

آخری کالم 22 مارچ کو تب تحریر کیا تھا جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو چکی تھی لیکن اس کا نتیجہ بالکل بھی واضح نہیں تھا، تب عمران خان عبوری نہیں بلکہ مکمل خودمختار وزیراعظم تھے۔ اتحادی جماعتوں نے اس وقت تک اپوزیشن اتحاد کی حمایت کا اعلان بھی نہیں کیا تھا۔

اسی کالم کی ان چند سطور سے اندازہ لگا لیں کہ جو کچھ ہم جیسے صحافیوں کو نظر آ رہا تھا خان صاحب اس کو سمجھنے میں کیوں اور کیسے ناکام ہوئے۔

’تحریک عدم اعتماد پیش ہوئے دو ہفتے مکمل ہوچکے ہیں اس پورے عرصے میں روزانہ کی بنیاد پر سیاسی بھونچال آتے دیکھے، لیکن کسی موقع ایسا نہیں لگا کہ گل ابھی ودی نہیں۔

اپنی گذشتہ تحریروں میں واضح کر چکا ہوں کی عمران خان نوشتہ دیوار نہیں پڑھ پا رہے اور بہت  دیر ہوچکی ہے لیکن جس طرح سے انہوں نے اپوزیشن کے حالیہ، ڈیڈلی اور انتہائی زیرک سٹرٹیجی  پر مبنی وار کی سنجیدگی کو سمجھنے میں دیر کی اس سے ان کی سیاسی بصیرت پر مزید سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔

اس وقت نمبر گیم میں پڑنا غیر ضروری ہے کیونکہ نمبر گیم میں عمران خان جیت سے کافی دور ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کے بقول اوپر سے کوئی معجزہ ہی حکومت کو بچا سکتا ہے۔‘

تقریباً دو ہفتے پہلے تحریر کی گئی انہی سطور کی بنا پر یہ اخذ کر رہا ہوں کہ خان صاحب جاتے جاتے بھی نوشتہ دیوار پڑھنے میں ناکام رہے۔

ماورائے آئین اقدامات تو پاکستان میں ڈکٹیٹرز صرف اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے کرتے رہے۔ لیکن آپ نے خود کو پاکستان کا ایسا پہلا سویلین حکمران بنا دیا جس نے اپنے اقتدار کے خاتمے کے لیے وہ رستہ چنا جسے عدالتی فیصلہ تو جس نظر سے بھی دیکھے لیکن پارلیمانی اور آئینی تاریخ اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ