پاکستانی حالات پر افغان میڈیا کی عدم دلچسپی کیوں؟

افغان میڈیا میں پاکستان سے متعلق زیادہ بحث اس وقت ہوتی ہے جب پاکستان کی سیاسی یا فوجی قیادت افغانستان سے متعلق اظہار خیال کرتی ہے۔

طلوع نیوز کے نیوز روم کا ایک منظر (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

پاکستان میں جاری سیاسی تبدیلیوں پر سوشل میڈیا پر تو افغان بھی دلچسپی لے رہے ہیں لیکن افغانستان میں مشکل حالات اور مسائل کی وجہ سے شاید وہاں کا میڈیا پاکستانی سیاسی بحران پر توجہ نہیں دے سکا ہے۔

افغان میڈیا میں پاکستان سے متعلق زیادہ بحث اس وقت ہوتی ہے جب پاکستان کی سیاسی یا فوجی قیادت افغانستان سے متعلق اظہار خیال کرتی ہے۔

افغان میڈیا نے اسلام آباد میں یکم اور دو اپریل کو ہونے والے سکیورٹی ڈائیلاگ میں خاصی دلچسپی کا اظہار کیا کیوں کہ اس میں وزیر اعظم عمران خان، فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے تقاریر میں افغانستان سے متعلق تفصیلی اظہار خیال کیا اور افغان میڈیا کے لیے اسی فورم میں سابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی شرکت اہم پیش رفت تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کے برعکس پاکستانی میڈیا میں سیاسی اور پارلیمانی بحران کی وجہ سے اس سکیورٹی ڈائیلاگ کو زیادہ کوریج نہیں ملی۔

دوسری جانب افغانستان میں طالبان حکومت اور سیاسی رہنماؤں نے پاکستان میں جاری سیاسی تبدیلیوں پر اب تک کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے پاکستان میں سیاسی تبدیلیوں سے متعلق پوچھا گیا لیکن انہوں نے وٹس ایپ پر بھیجے گئے سوال کا جواب نہیں دیا۔

پاکستان میں جاری سیاسی تبدیلیاں افغان ٹیلی ویژن چینلوں کے لیے اس وقت اہم موضوع نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ افغان میڈیا کی زیادہ توجہ افغانستان کے موجودہ حالات اور طالبان حکومت کی پالیسیوں پر مرکوز ہے۔ 

افغانستان میں اس وقت افیون کی کاشت پر پابندی سے متعلق طالبان کے امیر کا حالیہ حکم، لڑکیوں کے ہائی سکولوں کی بندش میں توسیع، خراب اقتصادی صورت حال اور انسانی بحران اہم معاملات اور افغان میڈیا میں زیر بحث ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا پر تو نہیں، البتہ افغانوں نے سوشل میڈیا پر پاکستانی حالات میں کسی قدر دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

کابل یونیورسٹی کے پروفیسر فیض خلاند نے پاکستانی کابینہ ڈویژن کا وزیر اعظم عمران خان کے عہدے پر نہ رہنے والا نوٹیفیکشن پوسٹ کر کے لکھا ہے: ’تاریخ کسی پر رحم نہیں کرتی۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’عمران خان غریب نے وقت سے پہلے استعفیٰ دے دیا۔ اب وہ بھاگنے کا راستہ ڈھونڈے گا۔ یہ وہ شخص ہے جس نے تقریباً تمام سیاسی رہنماؤں کو یا تو قید کر دیا اور یا ملک سے جانے پر مجبور کیا۔ ہر انسان کمزور ہے اور اقتدار مستقل نہیں ہوتا۔‘

فیض خلاند سوشل میڈیا پر طالبان کے حامی اور سابق حکومت کے سخت مخالفین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ٹوئٹر پر افغان طالبان کے ایک حامی عمر کوچی نے پاکستانی پارلیمنٹ میں ہنگامے کی ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں ’زیادہ خواتین اراکین کو ہاتھا پائی‘ کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔

کوچی لکھتے ہیں ’یہ پاکستانی پارلیمنٹ کے اراکین ہیں۔ یہ ان کی حالت ہے۔ ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں خواتین ہاتھا پائی میں مصروف ہیں اور ان کے شوہر ان کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتے اور یہ تماشہ دیکھتے ہیں۔‘

فری لانس افغان صحافی نجم برہانی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر افغان بھی پاکستانی سیاسی حالات پر اپنا موقف دے رہے ہیں۔

برہانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ افغان پاکستانی حالات پر اپنا اپنا نقطہ نظر دے رہے ہیں۔ کئی ایسے بھی لکھنے والے ہیں جن کا خیال ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بہت سی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن نظام خراب نہیں ہوا کیوں کہ پاکستان میں ادارے مضبوط ہیں، ادارے ملک میں حالات کو کنٹرول کر لیتے ہیں اگر حکومت چلی بھی جاتی ہے تو ادارے موجود ہوتے ہیں۔

افغانوں کی یہ بات کسی حد تک درست ہے کیوں کہ طالبان حکومت بننے کے بعد بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ گذشتہ سال اگست میں کابل پر طالبان کنٹرول کے بعد امریکہ اور نیٹو کی تربیت یافتہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے، پارلیمنٹ، آئین، انٹلیجنس ادارہ این ڈی ایس تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔

طالبان نئی فوج بنا رہے ہیں جو زیادہ تر ان کے سابق جنگجوؤں پر مشتمل ہو گی اور طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک فوج تیار کی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجموعی طور پر افغان موجودہ پاکستانی حالات پر خوش نظر آتے ہیں اور بہت سوں کا موقف ہے کہ عمران خان سابق افغان صدر اشرف غنی کے جانے پر خوش تھے اور ہم عمران خان کے جانے پر خوش ہیں۔

جرمنی میں ڈی ڈبلیو کی پشتو اور دری سروس سے وابستہ صحافی سیف اللہ زاہدی ایک ٹویٹ میں کہتے ہیں کہ عمران خان چلے گئے لیکن وہ امریکی صدرجو بائیڈن سے ملاقات نہ کر سکے بلکہ فون پر بات تک نہ کر سکے۔ 

’ایسا لگتا ہے کہ ان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔‘

افغان صحافی خالد امیری طالبان حکومت بننے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر ایک پاکستانی ٹی وی چینل کی قومی اسمبلی کی کارروائی کی ایک تصویر پوسٹ کر کے لکھا کہ ’اس وقت پاکستانی سیاست میں دلچسپ واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ دیکھنے کے لیے ایک اچھا شو۔‘

افغانستان میں پرنٹ میڈیا تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ آن لائن میڈیا بھی فعال ہے۔ اگست میں طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد بہت سے میڈیا ادارے بند  ہو گئے اور زیادہ صحافی ملک سے چلے گئے جبکہ میڈیا ماضی کی طرح آزاد نہیں رہا۔

اگرچہ افغان میڈیا کی توجہ موجودہ پاکستانی حالات سے متعلق نسبتاً کم ہے لیکن بین الاقوامی پشتو اور فارسی میڈیا کی ان حالات میں دلچسپی دیکھی گئی ہے اور پاکستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کا خبروں میں احاطہ کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی اور وائس آف امریکہ علاقائی زبانوں کی نشریات افغانستان کے بڑے حصے میں سنی اور دیکھی جاتی ہیں اور یہ خبریں آج کل زیادہ پڑھنے والی خبروں میں شمار ہوتی ہیں۔

افغان میڈیا پاکستان سے آنے والی ان خبروں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے جس میں افغانستان کا ذکر ہو۔

افغان میڈیا پاکستانی رہنماؤں کے اکثر بیانات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ویسے تو مثالیں بہت زیادہ ہیں لیکن جب اس سال جنوری میں وزیر اعظم عمران خان نے دوست ممالک کے مشورے سے افغانستان کی مدد کے لیے ماہرین بھیجنے کی تجویز پیش کی تو افغاستان میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور میڈیا میں شوروغوغا کے بعد طالبان کے وزیرخارجہ امیر خان متقی کو بھی بیان دینا پڑا کہ افغانستان کو کسی دوسرے ملک کے ماہرین کی ضرورت نہیں۔

اکثرافغان وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے افغانستان سے متعلق بیانات کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف طالبان کے مخالفین پاکستانی رہنماؤں کو طالبان کے نمائندے بھی کہتے ہیں۔

مارچ 22 اور 23 کو اسلام اباد میں اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں طالبان وزیرخارجہ امیر خان متقی کی عدم شرکت پر کئی افغانوں نے سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے کیے تھے جن کا کہنا تھا کہ اگر متقی غیر حاضر بھی ہیں لیکن شاہ محمود قریشی تو موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ