کیا عمران خان زرداری فارمولا سے سبق سیکھ سکتے تھے؟

اچھے کھلاڑی کی نشانی ہے کہ وہ شدید دباؤ کے باوجود اپنی نظریں گیند پر جمائے رکھتا ہے، آصف زرداری نے بھی طرح طرح کے تنازعات کے باوجود توجہ پانچ سال مکمل کرنے پر مرکوز رکھی۔

آصف علی زرداری نو جنوری 2014 کو اسلام آباد میں عدالت میں سماعت کے بعد باہر آ رہے ہیں (اے ایف پی)

ایک تاریخ ساز فیصلے میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جمعرات کو ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کر دیں اور اب یقینی دکھائی دے رہا ہے کہ ہفتے کو جب تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو گی تو عمران خان کی حکومت کا بستر ساڑھے تین سال ہی میں گول ہو جائے گا۔

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ عمران خان کیا کر سکتے تھے کہ وہ اپنی مدت پوری کرنے والے پہلے وزیرِ اعظم بن جاتے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں ماضی کا سفر کرنا پڑے گا۔

محترمہ بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک پیپلز پارٹی کی کمان اچانک سنبھالنے والے آصف علی زرداری کے سیاسی پینتروں کا ہر کوئی قائل ہے۔ وہ چاہے گھی سیدھی یا ٹیڑھی انگلی سے نکالیں سیاسی چال ان کی اکثر کامیاب رہی ہے۔ لوگ ان کی سیاست کے شاید حامی نہ ہوں لیکن ان کی چالوں کے اکثر معترف ہیں۔

انہوں نے 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جیت کے بعد اکثر سیاسی پنڈتوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے آصف زرداری نے وزارت عظمیٰ کی بجائے صدارت کا عہدہ اپنے لیے منتخب کیا۔

بی بی سی ورلڈ کے سابق نامہ نگار اوون بینٹ جونز اور مجھے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ظہرانے کا 2010 میں موقع ملا تھا۔ آصف علی زرداری سے وہ دوپہر کی ملاقات کئی حوالوں سے مختلف تھی۔

پہلی تو صدر پاکستان آصف علی زرداری سے یہ ملاقات ان کے دفتر میں ہی ہوئی تھی۔ اس وقت تاثر ملا کہ شاید زرداری صاحب نے اپنے آپ کو سکیورٹی خدشات کی ہی وجہ سے اپنے دفتر اور اس سے منسلک ایک کمرے تک محددو کر رکھا تھا۔

ہم نے ان کی بھنڈیوں والی محبوب ڈش پر مبنی ظہرانہ بھی اسی دفتر کے ایک کونے میں پڑی ایک چھوٹی سی گول میز پر کیا۔ ان سے بی بی سی کے لیے ’ایک دن صدر کے ساتھ‘ جیسی رپورٹ کا آئیڈیا پیش کیا تو انہوں نے فوراً مسترد کر دیا۔ ان کا استفسار تھا کہ ’مجھے اپنی مدت مکمل کرنے دو۔ میں کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے کوئی سیاسی بھونچال آئے۔‘

آصف علی زرداری نے سر نیچے کر کے جیسے تیسے بھی حکومت اور صدارت کی مدت مکمل کی۔ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں امریکی چھاپے میں ہلاکت کے بعد کمزور ہوئی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بہت سے اقدامات جن میں آرمی چیف کی پہلی مرتبہ تبدیلی شامل ہے اگر وہ چاہتے تو کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا۔ انہیں میمو گیٹ اور سوئس اکاونٹس کے تنازعات میں پھنسایا گیا لیکن ان کی نظریں صرف اور صرف پانچ سالہ مدت پر رہیں اور اسے ان کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی مانا جا سکتا ہے۔

جیسا انہوں نے ہم سے کہا ویسا کر دکھایا یعنی پہلی سیاسی حکومت اور اس کے صدر جس نے 2008 سے لے کر 2013 تک ملکی تاریخ میں پانچ سال مکمل کیے تھے۔ البتہ ان کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی مدت مکمل نہیں کرسکے۔ تو کیا زرداری کا اپر ہینڈ ہونے کے باوجود بیک فٹ پر کھیلنا کسی وزیر اعظم کو مدت مکمل کرنے دے سکتا ہے؟ پیپلز پارٹی کے اس دور کو ترقی کے اعتبار سے برا دور مانا جاتا ہے۔ ملکی پیداوار کم ہوئی اور بجلی کی شدید قلت پیدا ہوئی لیکن زرداری صاحب نے اپنے پانچ سال مکمل کیے۔

پاکستان کو ایسے بیک سیٹ لینے والے سیاست دان کم ہی ملے۔ ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، نواز شریف اور عمران خان جیسے رہنما جب وزیراعظم بنے ان پر الزام ہے مست ہوگئے۔ لیکن یوسف رضا گیلانی جیسے سادہ لوگ بھی سازشوں کے ہاتھوں مارے گئے۔

آصف زرداری تو اپنے ذاتی اور حکومتی ہدف کے حصول میں سرخرو رہے لیکن یہ کوئی پائیدار مثال نہ بن سکی۔ ان کے بعد نواز شریف بھی متحدہ عرب امارات کا اقامہ رکھنے کے جرم میں سزا یافتہ ہوئے اور نکال دیئے گئے۔ اب عمران خان اسی قسم کے بحران سے دوچار اور ان کا جانا ٹھہر گیا ہے۔

پاکستان کی بحرانوں سے اٹی سیاسی تاریخ میں میں اگر کوئی چیز سب سے کمزور اور جسے کسی بھی وقت گرایا جا سکتا ہے تو وہ ہے وزیر اعظم۔ چاہے وہ بھاری مینڈیٹ والی نواز شریف کی یا سادہ اکثریت والی عمران خان کی حکومت ہو۔

جس ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ہی ہلاک کر کے ہٹایا گیا ہو وہاں بعد میں بھی ان کے جانشینوں ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا۔ 1947 میں ملک کے قیام کے بعد سے چار مرتبہ جمہوری حکومتوں کو فوجی آمروں نے چلتا بنایا۔ دو وزرائے اعظم کو عدلیہ نے برطرف کیا جبکہ ایک مقبول رہنما کو عدالت کے ذریعے پھانسی دلوائی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تاریک سیاسی تاریخ پر نظر دوڑانے سے ایک بات واضح ہے کہ عوام کی ووٹ کی طاقت کے آئے منتخب نمائندوں کو ہٹانا سب سے آسان کام ہے۔ اس میں کبھی عدلیہ اور کبھی فوج پیش پیش رہی لیکن کئی گورنر جنرلوں اور صدرو نے بھی وزیراعظم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ اس مرتبہ عمران خان کو بظاہر نہ فوج اور نہ عدلیہ بلکہ منتخب نمائندوں کے ذریعے پارلیمان کے اندر سے ہی ہٹایا جا رہا ہے۔

انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے جان کر یا انجان میں غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ عمران خان بھی شاید اپنی رویوں کی وجہ سے شاید اچھے رہنما نہیں ثابت ہوئے لیکن دنیا کی بڑی بڑی جمہوریتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما آئے، جنہیں ہٹانے کے لیے مواخذے جیسی کئی کوششیں بھی ناکام رہیں اور بالآخر ایک قدیم جمہوری ملک میں انہیں ووٹ کے ذریعے ہی تبدیل کر دیا گیا۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں ہی اتنی کمزور ہیں کہ ہر کوئی تین چار سال بعد اس پودے کو اکھاڑ پھینکتا ہے۔

وزیراعظم کے کمزور ہونے کی غالباً سب سے بڑی وجہ محدود معاشی وسائل پر مخصوص گروپوں کے درمیان جنگ ہے۔ چاہیے یہ گروپ یا مافیا سیاسی ہوں یا سرکاری /ادارہ جاتی ان سب کی لڑائی میں پہلی ترجیع اپنے مفادات ہیں ملک کے نہیں۔

اگر کوئی جمہوری حکومت کسی سرکاری ادارے کو ملک بھر میں ٹیلی کام سروس کی اجازت نہیں دیتی یا مطلوبہ فنڈز مہیا نہیں کرتی تو وہ مشکل میں گھر جاتی ہے۔ اگر کوئی جمہوری حکومت اپنی مرضی کی کسی اہم عہدے پر تقرری کرنا چاہتی ہے اور وہ ادارہ اس سے متفق نہیں تو بحران پیدا کر دیا جاتا ہے۔ ذاتی یا ادارہ جاتی مفادات کے آگے اصول اور قانون محض کاغذ پر لکھی تحریر بن کر رہ جاتے ہیں۔

پاکستان بنے 75 سال ہو گئے لیکن ملکی قومی سوچ ابھی بھی نہیں بن سکی ہے۔ کوئی بھی انسان بہترین سیاست دان نہیں ہو سکتا، ہر کسی کی کمزوریاں ہوتی ہیں، یہ ملکی ادارے اور بڑی قومی سوچ والے اس کے اردگرد منجھے سیاست دان ہوتے ہیں جو ان کو مکمل بناتے ہیں، انہیں عقل دیتے ہیں جنہیں وہ سنتے ہیں۔ لیکن یہاں ہر کوئی رہنما کی غلطیاں تلاش کرکے ان کے ذریعے اپنے ذاتی یا اداراتی مفاد کے لیے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

نواز شریف اور عمران خان جیسے کئی سیاست دانوں پر اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار یا ’سیلیکٹڈ‘ ہونے کے الزام عائد ہوتے رہے ہیں۔ عمران خان چند دن پہلے تک کے سیاسی بیانیے میں ہمیشہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگ رہے ہیں۔ انہیں اکثر آئی ایس آئی کے سابق سربراہوں حمید گل سے لے کر شجاع پاشا اور فیض حمید تک جیسے ہم خیال ملے ہیں۔ اس کے باوجود فیض حمید کی انٹیلی جنس ایجنسی سے منتقلی میں تاخیر کی کوشش نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر دیا۔

کئی مبصرین کے خیال میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اب 75 سال بعد میں سیاست میں دخل اندازی اور تجربات کی پالیسی ختم کر دینی چاہیے۔ اسے ملکی مفاد اور جمہوریت کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ مفاد پرست سیاست دانوں کا۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام کسی بھی ملک اور خصوصا پاکستان جیسے معاشی بھنور میں پھنسے ملک کے لیے اچھا نہیں۔ اسے احساس ہونا چاہیے کہ اگر اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جمہوریت ہے تو اس کا حل بھی صرف اور صرف بہترین جمہوریت میں ہی ہے۔

نوابزادہ نصراللہ خاں، جو پاکستان میں بابائے جمہوریت کہلائے، اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر پہلے ہی فرما گئے ہیں:

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ