’فواد چوہدری اور شیخ رشید نے مروا دیا‘

ملک کے 23 ویں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس سے قبل عمران خان جب پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے تو اپنی باڈی لینگویج اور چہرے سے وہ اتنے فریش نظر نہیں آئے بلکہ پریشانی اور غصہ ان کے چہرے پر عیاں تھا۔

 پی ٹی  آئی کی پارلیمانی کمیٹی اجلاس کا منظر (فوٹو: انڈپینڈنٹ اردو)

تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان آج پہلی مرتبہ جب پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو صحافیوں سمیت پی ٹی آئی ارکان بھی بے صبری سے ان کا انتظار کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔

عمران خان کی آمد سے قبل صحافیوں نے کئی سوالات بھی تیار کیے اور پر امید تھے کہ خان صاحب شاید کھل کر بولیں گے، لیکن عمران خان جب پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے تو دور سے اپنی باڈی لینگویج اور چہرے سے وہ اتنے فریش نظر نہیں آئے بلکہ پریشانی اور غصہ ان کے چہرے پر عیاں تھا۔

یوں کہنا بہتر ہوگا کہ ان کا جذبہ اتنا زیادہ بلند نظر نہیں آیا۔ میڈیا کی جانب سے بار بار پوچھنے پر انہوں نے مختصراً جواب دیا کہ ’عزت اللہ دینے والا ہے‘ اور مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلا کر سلام کیا۔ وہ وزیراعظم پاکستان کو ملنے والی سکیورٹی میں ہی پارلیمنٹ پہنچے تھے۔

عمران خان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کے لیے جیسے ہی کمیٹی روم نمبر پانچ میں داخل ہوئے تو تمام ارکان نے ڈیسک بجا کر اپنی نشستوں سے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور نعرے بھی لگائے۔

عمران خان کی آمد سے قبل دلچسپ مناظر تب دیکھنے کو ملے جب رکن قومی اسمبلی علی محمد خان کمیٹی روم میں داخل ہوئے۔  تمام پارٹی ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر ڈیسک اور تالیاں بجاکر ان کا استقبال کیا اور ’ویلڈن علی محمد خان، علی محمد خان زندہ آباد، چھا گئے ہیں آپ‘ کے نعرے لگائے۔ ارکان نے کہا کہ علی محمد خان نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر مقابلہ کیا۔

کمیٹی روم کے اندر کیا ہو رہا تھا؟

میں جب کمیٹی روم میں فوٹیج بنانے کے لیے داخل ہوئی تو تحریک انصاف کے رہنماؤں کو گفتگو کرتے ہوئے سنا اور استعفوں کے معاملے پر تحریک انصاف میں تقسیم کا اندازہ ہوا۔

بعض ارکان نے استعفوں کے فیصلے کی حمایت تو بعض نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کسی صورت اسمبلی سے استعفے نہیں دینے چاہییں۔ اعجاز شاہ کہتے ہوئے نظر آئے ’استعفیٰ تو بالکل نہیں۔‘ یہ الگ بات ہے کہ کمیٹی اجلاس میں عمران خان نے استعفوں سے متعلق حتمی فیصلہ کیا اور حکمت عملی کے تحت ایوان کے اندر جاکر استعفے دینے کی ہدایات جاری کی۔

کمیٹی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے ارکان کافی غصے میں نظر آئے۔ ارکان نے میڈیا سے بھی شکوہ کیا کہ تحریک انصاف کے احتجاج کو کوریج ہی نہیں دی گئی۔

اس دوران سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری جو ہمیشہ سے میڈیا نمائندگان سے آتے جاتے باتیں کرتے رہتے ہیں، آج راستے میں کسی سے بھی بات کیے بغیر خاموشی سے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پہنچے۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عمران خان کے بعد اجلاس میں پہنچے۔ ان کے آنے پر بھی اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔

ہمیشہ کی طرح ہنستے مسکراتے سینیٹر فیصل جاوید نے بتایا کہ ’اجلاس میں سب کا اتفاق رائے لیا جا رہا ہے، جو اکثریت فیصلہ کرے گی، وہ ہوگا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت بھی پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

اجلاس کے دوران کمیٹی روم کا دروازہ کھلا جہاں پی ٹی آئی اراکین عمران خان کو کہتے نظر آئے کہ ’تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئی وزیراعظم کرپشن پر نکالا نہیں گیا۔ لوگ آپ کے لیے روئے ہیں، میدان کو خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ عوام کا ری ایکشن اتنا اچھا آیا ہے جو ایک پلس پوائنٹ ہے۔‘

اس دوران عمران خان چھت کی طرف دیکھتے رہے۔ کچھ دیر بعد کمیٹی روم کے اندر سے ایک دم نعروں کی آوازیں گونجیں جس میں ’خان تیرے جانثار بے شمار بے شمار‘ اور ’نا منظور نا منظور‘ شامل تھے۔

مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی محسن نواز رانجھا غلطی سے اندر جانے لگے تو انہیں میں نے بتایا کہ ’یہاں پی ٹی آئی کا اجلاس چل رہا ہے۔‘ محسن رانجھا دروازے سے ایک دم پیچھے ہو گئے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے اور مسکراتے ہوئے واپس چلے گئے۔

جب اجلاس ختم ہوگیا اور اراکین باہر نکلنا شروع ہوئے تو عمران خان سے ملنے والوں کا بھی تانتا بندھ گیا۔ اس رش میں مجھے علی نواز اعوان نے کمیٹی روم میں اندر آنے دیا جہاں پہلے سے ہی چند اراکین موجود تھے۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی جہاں پی ٹی آئی کی رکن منزہ حسن کو کہتے ہوئے سنا: ’یہ دو بندے ہمیں تباہ کرکے چھوڑیں گے۔ فواد چوہدری اور شیخ رشید کہہ رہے تھے کہ استعفیٰ دو۔ جو فوج کے سب سے بڑے حامی بنے ہوئے تھے وہ مخالف بنے ہوئے ہیں۔‘

میں ابھی کمیٹی روم نمبر پانچ میں ہی موجود تھی تب ایک دم سے کمرے میں ہلچل ہوئی اور عمران خان اندر آ گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری بھی آ گئے۔ عمران خان ان کا ہاتھ پکڑ کر بات کرنے لگے اور ہاتھ ہلا ہلا کر کچھ کہتے نظر آئے۔ ان کے بعد مزید اراکین جن میں کچھ پہلے سے کمیٹی روم میں موجود تھے، بھی آ گئے جن میں ملیکہ بخاری بھی تھیں اور تاثر دیا گیا جیسے عمران جان نے قاسم سوری کو کوئی ہدایات دی ہوں۔

یہاں سے نکلنے کے بعد میں حکومتی لابی پہنچی جہاں پی ٹی آئی اراکین نے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے ایوان میں جاتے ہوئے شدید نعرے بازی کی۔ بعد ازاں تحریک انصاف کے اراکین اور اسمبلی میں بیٹھے لیگی اراکین اور مہمانوں کے مابین جیسے نعروں کا مقابلہ ہوا۔

تلاوت قرآن سے اجلاس کے آغاز کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری شدید غصے میں نظر آئے۔ شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران بینچز کے دونوں اطراف بیٹھے ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ پی پی پی کی رکن شگفتہ جمانی اپنی نشست پر کھڑی ہو کر کہتی رہیں کہ ’انہیں چپ کروائیں‘ تو دوسری جانب پی ٹی آئی رکن کنول شوزب نے جواب میں کہا: ’تم چپ کرکے بیٹھو۔‘

شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر میں کہا: ’ذوالفقار بھٹو کہتے تھے طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں،‘ یہ سن کر بلاول بھٹو بے ساختہ ہنسنے لگے۔

شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر کے بعد استعفوں کا اعلان کیا اور ایوان سے نکل گئے۔

جیسے ہی ان کی تقریر ختم ہوئی، تمام پی ٹی آئی اراکین جو اجلاس کے دوران مکمل چپ رہے تھے، اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور نعرے لگانا شروع ہوگئے۔ کچھ نے پیپر بھی پھاڑ کر پھینکے، ایک رکن گل ظفر خان ٹیبل پر چڑھ کر نعرے لگانا شروع ہو گئے۔

دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت جی ڈی اے جس نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا بلکہ عمران خان کے ساتھ کھڑی رہی، اس کے دو ارکان سائرہ بانو اور غوث بخش مہر ایوان میں موجود رہے۔

ایوان سے جاتے ہوئے پی ٹی آئی کے عامر ڈوگر انہیں بار بار قائل کرتے رہے لیکن وہ اپنی نشستوں پر براجمان رہے جبکہ عمران خان کا ساتھ دینے والی ق لیگ کے دو اہم رہنما چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ بھی کھل کر سامنے آئے اور شہباز شریف کو بطور وزیراعظم ووٹ بھی دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست